ابن عباس رضی اللہ عنہما اور محمد بن حنفیہ رحمہ اللہ سے دریافت کیا گیا کہ کیا نبی ﷺ کوئی شے چھوڑ کر گئے؟ تو ان دونوں نے جواب دیا کہ آپ ﷺ نے صرف وہی کچھ چھوڑا جو مصحف کے…

ابن عباس رضی اللہ عنہما اور محمد بن حنفیہ رحمہ اللہ سے دریافت کیا گیا کہ کیا نبی ﷺ کوئی شے چھوڑ کر گئے؟ تو ان دونوں نے جواب دیا کہ آپ ﷺ نے صرف وہی کچھ چھوڑا جو مصحف کے دو دفتیوں کے مابین ہے۔

عبد العزیز بن رفیع رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں اور شداد بن معقل رحمہ اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوئے تو شداد بن معقل نے ان سے پوچھا: کیا نبی ﷺ کچھ چھوڑ کر گئے؟۔ انہوں نے جواب دیا کہ آپ ﷺ نے صرف وہی کچھ چھوڑا ہے جو مصحف کے دو دفتیوں کے مابین ہے۔ عبد العزیز بن رفیع کہتے ہیں کہ ہم محمد بن حنفیہ رحمہ اللہ کے پاس آئے تو انہوں نے بھی یہی جواب دیا کہ آپ ﷺ نے صرف وہی کچھ چھوڑا ہے جو مصحف کے دو دفتیوں کے مابین ہے۔

[صحیح] [اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]

الشرح

دو جلیل القدر تابعی یعنی عبد العزیز بن رفیع رحمہ اللہ اور شداد بن معقل رحمہ اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس آئے ۔ شداد بن معقل نے ان سے سوال کیا کہ کیا نبی ﷺ اپنے وفات کے بعد کوئی شے چھوڑ کر گئے تھے؟ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے جواب دیا کہ آپ ﷺ نے اپنی وفات کے بعد صرف اور صرف قرآن ہی کو چھوڑا ہے جو مصحف کے دونوں دفتیوں کے مابین ہے۔ پھر وہ محمد بن حنفیہ رحمہ اللہ کے پاس آئے اور ان سے بھی یہی سوال کیا ۔ اس حدیث سے روافض کے مذہب کا ابطال ہوتا ہے جو یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ قرآن میں علی رضی اللہ عنہ کی امامت کی نص موجود تھی لیکن صحابہ نے اسے چھپا لیا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما علی رضی اللہ عنہ کے چچا زاد بھائی ہیں اور محمد بن حنفیہ رحمہ اللہ علی رضی اللہ عنہ کے بیٹے ہیں۔ لوگوں میں سے یہ دونوں علی رضی اللہ عنہ کے سب سے زیادہ قریب رہے۔ اگر واقعی کوئی ایسے بات ہوتی جس کا روافض دعوی کرتے ہیں تو اس سے آگاہ ہونے کا سب سے زیادہ حق انہی کا تھا اور ان سے بہرحال یہ چھپی نہ رہ سکتی۔ بلکہ خود علی رضی اللہ عنہ سے بھی اس طرح کی بات مروی ہے۔

التصنيفات

قرآن کے بارے میں شہبات کا رد