إعدادات العرض
اللہ کے رسول سے سونے اور چاندی کی شکل میں ملنے والی گری پڑی چیز کے بارے میں پوچھا گیا؟ آپ ﷺ نے فرمایا، اس کی ڈوری اور کپڑے کی تشہیر کرو۔ پھر ایک سال تک اس کی تشہیر کرو،…
اللہ کے رسول سے سونے اور چاندی کی شکل میں ملنے والی گری پڑی چیز کے بارے میں پوچھا گیا؟ آپ ﷺ نے فرمایا، اس کی ڈوری اور کپڑے کی تشہیر کرو۔ پھر ایک سال تک اس کی تشہیر کرو، پھر اگر تم نے اسے خرچ کر لیا، تو وہ تمہارے پاس ودیعت ہوگی۔ جب کبھی بھی اس کا مالک آئے، تمہیں ادا کرنا پڑے گا۔
زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے کسی کے گرے یا بھولے ہوئے سونے اور چاندی کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا : ”اس کے بٹوے اور (باندھنے کی) رسی کی شناخت کرلو، پھر ایک سال اس کی تشہیر کرو، اگر (کچھ بھی) نہ جان پاؤ تو اسے خرچ کرلو اور وہ تمہارے پاس امانت ہوگی، اگر کسی بھی دن اس کا طلب کرنے والا آ جائے تو اسے اس کی ادائیگی کر دو“۔ اس شخص نے آپ ﷺ سے گم شدہ اونٹ کے بارے میں پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا : ”تمہارا اس سے کیا واسطہ ؟ اس کا جوتا اور مشکیزہ اس کے ساتھ ہے، وہ مالک کے پالینے تک (خود ہی) پانی پر آتا اور درخت کھاتا ہے“۔ اس نے آپ ﷺ سے بکری کے بارے میں پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا : ”اسے پکڑ لو، وہ تمہاری ہے یا تمہارے بھائی کی ہے یا بھیڑیے کی ہے“۔
[صحیح] [متفق علیہ]
الترجمة
العربية বাংলা Bosanski English Español فارسی Bahasa Indonesia Русский Tagalog Türkçe 中文 हिन्दी Français ئۇيغۇرچە Hausa Portuguêsالشرح
ایک شخص نے آپ ﷺ سے کسی کے گم شدہ مال جیسے سونا، چاندی، اونٹ اور بکریوں کے بارے میں دریافت کیا۔ آپ ﷺ نے ان تمام چیزوں کا حکم بیان فرمایا تاکہ یہ ان جیسی گم شدہ چیزوں کے لیے مثال بنے اور اُن کا حکم معلوم ہو۔ سونے اور چاندی کے بارے میں کہا: اس ڈوری کی پہچان کرو جس سے وہ باندھی ہوئی ہے اور اس بٹوے کو بھی جس میں وہ چیز رکھی ہوئی ہے تاکہ مالکوں کے درمیان تمییز کر سکو ہو اور اپنے علم کے مطابق اس کے مدعی کو بتا سکو جو اس کا دعوے دار ہے۔ اگر مدعی کی بیان کردہ صفت اس کی صفات کے موافق ہوں تو اسے دے دو ورنہ اس کے دعوے کا جھوٹا ہونا تم پر ظاہر ہو جائے گا۔ آپ ﷺ نے چیز ملنے کے بعد مکمل ایک سال تک اس کی پہچان کروانے (تشہیر) کا حکم دیا۔ تشہیر لوگوں کے عمومی مجموعے میں ہوگی جیسے بازار، مسجد کے دروازے، عام اجتماعات اور ملنے کی جگہ میں۔ ایک سال تشہیر اور مالک کے نہ ملنے کے بعد اس کے استعمال کو حلال قرار دے دیا اور اگر زندگی میں کسی بھی وقت اس کا مالک آ گیا تو اسے وہ لوٹا دیا جائے۔ جہاں تک گم شدہ اونٹ وغیرہ کا تعلق ہے یعنی جو اپنے آپ کو سنبھال سکے، اس کے لینے سے منع فرمایا، اس لیے کہ اس کی حفاظت کی ضرورت نہیں، وہ خود اپنا محافظ ہے۔ اس لیے کہ اس میں اپنے آپ کو چھوٹے درندوں سے بچانے کی طاقت موجود ہے، اس کے پاؤں ہے جس کے ذریعے وہ صحراؤں کو عبور کرسکتا ہے اور وہ اپنی گردن سے درخت چرسکتا ہے اور پانی پی سکتی ہے، اور اس کا پیٹ بہت ساری غذا جمع کر سکتا ہے۔ مالک کے ملنے تک وہ اپنی حفاظت خود کرے گا کہ وہ گم شدگی کی جگہ میں اسے ڈھونڈے گا۔ جہاں تک گم شدہ بکری اور چھوٹے جانوروں کا تعلق ہے۔ تو اسے ہلاکت اور درندوں کی چیر پھاڑ سے بچانے کے لیے اسے حفاظت کی خاطر پکڑنے کا حکم دیا، پکڑنے کے بعد اگر اس کا مالک آ جائے تو اسے دے دو یا اس کی پہچان کروانے کا سال مکمل ہو جائے تو وہ ملنے والے کا ہوگا۔