إعدادات العرض
ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کا لڑکا بیمار تھا۔ وہ کہیں باہر گئے ہوئے تھے کہ بچے کا انتقال ہو گیا۔
ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کا لڑکا بیمار تھا۔ وہ کہیں باہر گئے ہوئے تھے کہ بچے کا انتقال ہو گیا۔
انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کا لڑکا بیمار تھا۔ وہ کہیں باہر گئے ہوئے تھےکہ بچے کا انتقال ہوگیا۔ ابوطلحہ واپس آئے تو بیوی سے پوچھا کہ بچہ کیسا ہے؟ بچے کی ماں ام سلیم نے کہا کہ وہ پہلے سے زیادہ پرسکون حال میں ہے۔ پھر بیوی نے ان کے سامنے شام کا کھانا رکھا۔ ابوطلحہ کھانے سے فارغ ہوگئے۔ اس کے بعد بیوی سے ہم بستری کی۔ جب وہ فارغ ہوگئے، توام سلیم نے کہا کہ بچے کو دفن کردو! صبح ہوئی تو ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوۓ اور آپ کو سارے واقعہ سنایا۔ نبی کریم ﷺ نے دریافت فرمایا کہ تم نے رات کو ہم بستری کی ہے؟ انھوں نے عرض کیا: جی ہاں! نبی ﷺ نے یہ دعا دی: ”اے اللہ! ان دونوں کو برکت عطا فرما“۔ پھر ان کے یہاں ایک بچے کی پیدائش ہوئی۔ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا کہ اس بچے کو نبی کریم ﷺ کی خدمت میں لے جاؤ اور ساتھ ہی کچھ کھجوریں بھیجیں۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ ساتھ میں کوئی چیز بھی ہے؟ انھوں نے جواب میں کہا کہ جی ہاں کچھ کھجور ہیں! نبی کریم ﷺ نے ان کھجوروں کو لیا۔ اپنے منہ میں چبایا۔ پھر اس کو اپنے منہ سے نکال کر بچے کے منہ میں ڈال دیا۔ بچے کی تحنیک کی اور اس کا نام عبداللہ رکھا۔ ایک اور روایت میں ابن عیینۃ فرماتے ہیں: ایک انصاری شخص کا کہنا ہے کہ میں نے نو لڑکے دیکھے؛ سب کے سب قرآن مجید کے قاری تھے۔ یعنی اس نومولود عبداللہ کی اولاد میں سے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے ایک لڑکے کا انتقال ہوگیا، جو ام سلیم رضی اللہ عنہا کے بطن سے تھا۔ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے اپنے اہل خانہ کو تاکید کردی کہ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کو بیٹے کے مرنے کی خبر نہ دینا، یہاں تک کہ میں خود انھیں بتادوں، ابوطلحہ رضی اللہ عنہ آئے۔ ام سلیم رضی اللہ عنھا نے انھیں شام کا کھانا پیش کیا۔ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کھانے پینے سے فارغ ہوئے۔ پھر ام سلیم رضی اللہ عنھا نے ان کے لیے اس سے بہتر بناؤ سنگھار کیا جو اس سے قبل کیا کرتی تھیں۔ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے ان سے ہم بستری کی۔ جب ام سلیم نے دیکھا کہ وہ کھانے سے بھی سیر ہوگئے اور ان کے ساتھ بھی وقت گزار لیا، تو انھوں نے کہا:ابوطلحہ! ذرا یہ تو بتاؤ کہ اگر کچھ لوگ ایک گھرانے کو ادھار دی جانے والی کوئی چیز ادھار دیں، پھر وہ اپنی چیز واپس مانگ لیں، تو کیا ان کو حق ہے کہ ان کو منع کریں؟ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا:نہیں۔ ام سلیم رضی اللہ عنھا نے کہا:تو پھر اپنے بیٹے (کی وفات) پر صبر کیجیے۔ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ یہ سن کر غصہ میں آگئے اور کہا:تم نے مجھے بے خبر رکھا، یہاں تک کہ میں آلودہ ہوگیا، پھرتم نے مجھے میرے بیٹے کے بارے میں بتایا!! پھر وہ چل پڑے، یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور آپ کو ساری باتیں بتادیں۔ رسول اللہ ﷺ نے دعا دیتے ہوئے فرمایا: ”تمھاری گزرنے والی رات میں اللہ تعالیٰ تمھیں برکت عطا فرمائے!“ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ام سلیم رضی اللہ عنہا حاملہ ہوگئیں۔ وہ آگے بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ ایک سفر میں تھے اور ام سلیم آپ ﷺ کے ہم راہ تھیں، رسول اللہ ﷺ جب سفر سے مدینہ لوٹتے تو رات کو آکر مدینہ میں دستک نہیں دیتے تھے۔ سب لوگ مدینہ کے قریب پہنچے تو ام سلیم رضی اللہ عنہا کو دردزِہ نے آلیا۔ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کو ان کے پاس رکنا پڑا اور رسول اللہ ﷺ چل پڑے۔ ( انس رضی اللہ عنہ) کہہتے ہيں:(اس وقت) ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کہہ رہے تھے:میرے پروردگار!مجھے یہی اچھا لگتا ہے کہ میں بھی تیرے رسول کے ساتھ باہر نکلوں، جب آپ (مدینہ سے) باہر نکلیں، اور جب آپ (مدینہ کے) اندر آئیں تو میں بھی آپ کے ساتھ اندر آؤں،(لیکن) میں اس بات کی وجہ سے روک دیا گیا ہوں جو تو دیکھ رہا ہے، (انس رضی اللہ عنہ) کہتے ہیں:تو ام سلیم رضی اللہ عنھا کہنے لگیں:ابوطلحہ! جو (درد) مجھے محسوس ہورہا تھا، اب محسوس نہیں ہورہا ہے، لہذا چلیے! چنانچہ ہم چل پڑے۔ (انس رضی اللہ عنہ ) بیان کرتے ہیں: جب دونوں (مدینہ) آگئے تو ام سلیم کو (دوبارہ) درد شروع ہوگیا اور ایک بیٹے کو جنم دیا۔ میری ماں (ام سلیم) نے مجھ سے کہا:اسے کوئی بھی دودھ نہیں پلائے گا، یہاں تک کہ صبح تم اسے رسول اللہ ﷺ کے پاس لےجاؤگے۔ جب صبح ہوئی، تو میں نے اسے اٹھالیا، اسے لے کر رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوا۔ پھر انھوں نے مکمل حدیث بیان فرمائی۔
الشرح
انس بن مالک رضی اللہ عنہ، ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے تعلق سے حدیث بیان کرتے ہیں کہ ان کا بیٹا بیمار تھا۔ دراصل ابوطلحہ رضی اللہ عنہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی والدہ (ام سلیم رضی اللہ عنہا) کےشوہر تھے۔ انھوں نے انس رضی اللہ عنہ کے والد کے بعد انھیں اپنی زوجیت میں لے لیا تھا۔ ابوطلحہ اپنے کسی کام کے سلسلے میں باہر نکلےاور اس دوران بچے کی وفات ہوگئی۔ جب وہ واپس لوٹے تو بچے کی ماں سے اس کے متعلق دریافت کیا کہ میرے بیٹے کی صحت کیسی ہے؟ بیوی نے جواب دیا کہ وہ پہلے سے زیادہ پرسکون حالت میں ہے۔ در حقیقت انھوں نے سچ ہی کہا تھا کہ وہ اپنی سابقہ حالت سے زیادہ پرسکون ہے؛ کیوں کہ بچے کی وفات ہوچکی تھی۔ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے سمجھا کہ بچہ، بیماری سے صحت یاب ہو کر پرسکون حالت میں ہوگا اور اس کی بیماری دور ہوچکی ہوگی۔ بیوی نے ابوطلحہ کے سامنے شام کا کھانا پیش کردیا اور انھوں نے اس اطمینان کے ساتھ شام کا کھانا کھا لیا کہ بیٹا صحت یاب ہوچکا ہے۔ اس کے بعد اپنی بیوی سے ہم بستری یعنی جماع بھی کیا۔ جب فارغ ہو گئے تو بیوی نے کہا کہ بچے کو دفنا دیجیے؛ کیوں کہ اس کی وفات ہوچکی ہے! -یہ پہلی روایت کے مطابق ہے- جب صبح ہوئی، تو بچے کو دفن کیا اور نبی کریم ﷺ کو اس بات کی اطلاع دی۔ آپ ﷺ نے دریافت کیا کہ تم نے رات میں ہم بستری کی ہے؟ ابوطلحہ نے جواب دیا کہ جی ہاں! آپ ﷺ نے دونوں کے حق میں برکت کی دعا فرمادی، چنانچہ ان کے یہاں ایک بابرکت لڑکے کی ولادت ہوئی۔ انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھ سے ابوطلحہ نے کہا کہ اس بچے کو نبی کریم ﷺ کے پاس لے جاؤ۔ ساتھ ہی انھوں نے کچھ کھجوریں بھی بھیجیں؛ تاکہ ان سے آپ ﷺ تحنیک فرمادیں۔ بچے کے پیٹ میں سب سے پہلے نبی ﷺ کے لعاب دہن کے ساتھ چبائی ہوئی شے داخل ہو اور اس بچے کی زندگی میں برکتیں نازل ہوں۔ جب نبی کریم ﷺ کی خدمت میں اس بچے کو حاضر کیا گیا، تو آپ نے دریافت کیا کہ اپنے ساتھ کچھ لائے ہو؟ یعنی جس کے ذریعہ آپ تحنیک فرمائیں۔ انس رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ کچھ کھجوریں ان کے پاس ہیں۔ آپ ﷺ نے کھجور لے کر اپنے منہ میں چبایا؛ تاکہ اپنے بابرکت لعاب دہن کے ساتھ اسے ملادیں اور بچے کے لیے اس کا نگلنا آسان ہوجاۓ۔ اس طرح بچے کے پیٹ میں سب سے پہلے نبی مصطفیٰ ﷺ کے لعاب دہن کے ساتھ چبائی ہوئی کھجور داخل ہو، جو اس بچے کی نیک بختی کا باعث ہو اور اس کی زندگی میں برکتیں نازل ہوتی رہیں۔ اس کے بعد نبی ﷺ نے اپنے منہ سے چبائی ہوئی کھجور نکال کر بچے کے منہ میں ڈال دی۔ انھیں بچے کے منہ میں پھیرا اور اس کانام عبداللہ رکھا۔ اس بچے کے ہاں نو لڑکے ہوئے اورنبی کریم ﷺ کی دعا کی برکت سے وہ سب کے سب قرآن مجید کے قاری نکلے۔ صحیح مسلم کی ایک روایت کے مطابق، ام سلیم رضی اللہ عنھا نے اپنے گھر والوں کو تاکید کردی تھی کہ"ابوطلحہ کو ان کے فرزند کے بارے میں اطلاع نہ دینا، تاآں کہ میں ہی انھیں اس کے بارے میں بتلاؤں۔"جب ابوطلحہ رضی اللہ عنہ گھر تشریف لائے، انھیں رات کا کھانا پیش کیا۔ وہ کھانے پینے سے فارغ ہوگئے۔ پھر ام سلیم نے ان کے لیے بناؤ سنگھار کیا۔ خود کو خوش بو سے معطر کرلیا اور سج سنور گئیں۔ پھر ابوطلحہ نے ان سے ہم بستری کی اور جب جماع سے فارغ ہوئے تو بیوی نے اپنے بیٹے کی نسبت ادھار کے طور پر لی گئی شے سے مثال بیان کی، جسے اس کے مالک کے حوالہ کردیا جاتا ہے اور ان سے پوچھا کہ اے ابوطلحہ! ذرا یہ تو بتائیے کہ اگر کچھ لوگ اپنے گھر کی کوئی چیز کسی گھرانے کو ادھار کے طور پردیں اور پھر ان سے اپنی چیز واپس مانگ لیں، تو کیا لینے والے کے لیے درست ہے کہ وہ ادھار دینے والوں کو ان کی چیز واپس کرنے سے انکار کردیں؟ ابوطلحہ نے جواب میں کہا کہ نہیں! تب بیوی نے کہا کہ تو پھر اپنے فرزند کے تئیں اللہ تعالیٰ سے امید رکھو۔ ابوطلحہ یہ سن کر غصے میں آگئے اور کہا:تم نے مجھے اس بات سے اس حد تک بے خبر رکھا کہ میں (کھانے،پینے اور جماع جیسے امور میں پوری طرح) آلودہ ہوگیا اور ان سب کے بعد تم میرے بیٹے کے انتقال کی خبردے رہی ہو؟! پھر نبی کریم ﷺ سے اپنی بیوی کی شکایت کرنے اور ان کے ساتھ پیش آئے سارے ماجرے کو بیان کرنے کے لیے نکل پڑے۔ چنانچہ نبی ﷺ نے ان دونوں کے حق میں ایسی دعا دی کہ ان دونوں کے اس عمل کا بہترین نتیجہ برآمد ہوا۔ فرمایا: "تمھاری گزرنے والی رات میں اللہ تعالیٰ تمھیں برکت عطا فرمائے!"یعنی اس رات تم دونوں کی ہم بستری کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ تمھیں پاکیزہ اولاد اور بہترین نسل سے نواز دے۔ بعدازاں وہ حاملہ ہوئیں۔ وہ اور ان کے شوہر رسول اللہ ﷺ کے کسی سفر میں ہم راہ تھے۔ جب مدینے میں داخل ہونے والے تھے کہ انھیں دردزہ نے آلیا، یعنی ولادت کی تکلیف محسوس ہونی شروع ہوگئی۔ رسول اللہ ﷺ کا معمول تھا کہ سفر سے لوٹتے تو اہل مدینہ کو قافلے کی آمد کی خبر دینے کے لیے کسی قاصد کوروانہ فرماتے اور اس سے قبل مدینے میں داخل نہ ہوتے۔ اپنی بیوی کی زچگی کے امور میں مشغول ہونے کی وجہ سے ابوطلحہ کو وہیں رک جانا پڑا اور رسول اللہ ﷺ چل پڑے۔ ابوطلحہ اپنے رب سے یوں گویا ہوئے کہ اے میرے پروردگار! تو بخوبی جانتا ہے کہ مجھے بس یہی اچھا لگتا ہے کہ جب کبھی رسول اللہ ﷺ باہر نکلیں، تو میں بھی تیرے رسول کے ساتھ نکلوں اور جب آپ مدینہ واپس آئیں تو میں بھی آپ کے ہم راہ اندر آؤں، لیکن تو دیکھ رہا ہے کہ مجھے کس وجہ سےروک دیا گیا ہے۔ چنانچہ ام سلیم رضی اللہ عنھا نے ان سے کہا کہ اے ابوطلحہ! مجھے اب وہ درد محسوس نہیں ہورہا ہے، جو پہلے ہورہا تھا۔ یعنی مجھے اب دردزہ کی وہ تکلیف محسوس نہیں ہورہی ہے، جو اس سے پہلے ہورہی تھی۔ پھر ان سے کہا کہ اب چلیے۔ جب یہ لوگ مدینہ پہنچ گئے، تو زچگی کا وقت آگیا۔ انھوں نے ایک بیٹے کو جنم دیا۔ ام سلیم رضی اللہ عنھا نے انس رضی اللہ عنہ سے کہا کہ بچے کو نبی ﷺ کے پاس لے جاؤ۔ اس بات کی بھی تاکید کی کہ اس کو کوئی دودھ نہ پلائے۔ تاکہ بچے کے پیٹ میں سب سے پہلے نبی ﷺ کا لعاب دہن داخل ہو اور اس کے نتیجے میں دنیا و آخرت کی تمام بھلائیاں اس کی زندگی میں آجائیں۔ اس عمل کا نتیجہ اس لڑکے میں ظاہر ہو گیا کہ اس کی نسل میں نیکوکار، پرہیزگار اور فلاح و کامرانی سے ہم کنار ہونے والے لڑکوں کی بہتات ہوئی۔ اس حدیث کی شرح کے اختتام پر یہ جاننا ازحد ضروری ہے کہ جسم سے نکلنے والی چیز سے تبرک حاصل کرنا صرف اور صرف نبی ﷺ کی خصوصیات سے تعلق رکھتا ہے، جس میں اس امت کا کوئی فرد کبھی شریک و حصہ دار نہیں ہوسکتا۔ اس بات کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ نزول وحی کا راست مشاہدہ کرنے والے اور دینی حقائق سے بھرپور واقفیت و آگہی رکھنے والے صحابہ رضی اللہ عنھم اجمعین نے خلفاے راشدین اور ان کے علاوہ عشرۂ مبشرہ میں سے کسی کے ذریعہ کبھی تبرک حاصل نہیں کیا۔