جو شخص مشترک غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کر دے، تو اسے چاہیے کہ اپنے مال کے ذریعے غلام کو پوری آزادی دلا دے۔ لیکن اگر اس کے پاس اتنا مال نہ ہو، تو انصاف کے ساتھ غلام کی…

جو شخص مشترک غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کر دے، تو اسے چاہیے کہ اپنے مال کے ذریعے غلام کو پوری آزادی دلا دے۔ لیکن اگر اس کے پاس اتنا مال نہ ہو، تو انصاف کے ساتھ غلام کی قیمت لگائی جائے۔

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص مشترک غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کر دے، تو اسے چاہئے کہ اپنے مال کے ذریعے غلام کو پوری آزادی دلا دے۔ لیکن اگر اس کے پاس اتنا مال نہ ہو، تو انصاف کے ساتھ غلام کی قیمت لگائی جائے ۔ پھر غلام سے کہا جائے کہ (اپنی آزادی کی) کوشش میں لگ جا‏ۓ۔ لیکن غلام پر اس سلسلے میں کوئی مشقت نہ ڈالی جائے“۔

[صحیح] [متفق علیہ]

الشرح

جس نے اپنے زیر ملکیت غلام کا ایک حصہ آزاد کر دیا، اس پر لازم ہے کہ وہ پورے غلام کو آزاد کردے، اگر اس کے پاس اتنا مال ہو۔ یعنی اپنا حصہ آزاد کرنے والے کے پاس اتنا مال ہو کہ وہ غلام میں اپنے حصہ داروں کو ان کے حصوں کی قیمت ادا کر کےاسے پورا آزاد کر سکتا ہو۔ البتہ اگر اس کے پاس مال نہ ہو یا مال تو ہو لیکن اتنا نہ ہو کہ آزادی کا خرچ برداشت کر سکے یا پھر ایسا کرنے سے اسے کوئی نقصان ہو، تواس صورت میں وہ غلام کو دو امور کا اختیار دے گا۔ اول:یہ کہ غلام کا اس قدر حصہ ملک میں رہے جو باقی ہے۔ چنانچہ اس صورت میں یہ غلام "مبعض" ہو گا۔ یعنی اس کا بعض حصہ غلام ہو گا اور بعض آزاد۔ اس صورت میں اس کے لیے جائز ہے کہ وہ جزوى غلام بن کر رہے۔ دوم:وہ غلام اس شخص کو رقم ادا کرنے کے لیے کام کرے جس نے اپنا حصہ آزاد نہیں کیا، بعد اس کے کہ غلام کی منصفانہ انداز میں قیمت لگوائی جائے۔ اسے استسعا کہا جاتا ہے۔

التصنيفات

غلامی وآزادی