تم میں سے ایک شخص اپنی بیوی کو غلام کی طرح مارتا ہے، حالانکہ (یہ نہیں سوچتا کہ) شاید وہ اسی دن کے آخری حصہ میں اس سے ہم بستر بھی ہو۔

تم میں سے ایک شخص اپنی بیوی کو غلام کی طرح مارتا ہے، حالانکہ (یہ نہیں سوچتا کہ) شاید وہ اسی دن کے آخری حصہ میں اس سے ہم بستر بھی ہو۔

عبداللہ بن زمعہ کہتے ہیں: میں نے نبی اکرم ﷺ کو ایک دن دوران خطبہ (صالح علیہ السلام کی) اونٹنی اور اس کی کوچیں کاٹنے والے کا ذکر کرتے ہوئے سنا، آپ نے یہ آیت {إِذِ انْبَعَثَ أَشْقَاهَا انْبَعَثَ} تلاوت کی (اور فرمایا:) "اس کام کے لیے ایک سخت دل، طاقت ور، قبیلے کا قوی ومضبوط شخص اٹھا"۔ پھرآپ نےعورتوں کے متعلق نصیحت فرمائی۔ فرمایا: ”آخر کیوں کوئی اپنی بیوی کو غلام کو کوڑے مارنے کی طرح کوڑے مارتا ہے، جب کہ اس بات کا امکان رہتا ہے کہ وہ دن کے آخری حصے میں (یعنی رات میں) اس کے پہلو میں سوئے بھی“۔ پھر ہوا خارج ہوجانےکی وجہ سے ہنسنے پر نصیحت کی۔ فرمایا: ”تم میں سے کوئی اس کام پر کیوں ہنستا ہے، جو وہ خود بھی کرتاہے“۔

[صحیح] [متفق علیہ]

الشرح

نبیﷺ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے جسے عبد اللہ بن زمعہ رضی اللہ نے سنا، آپﷺ نے جو خطبہ دیا اس میں انھوں نے آپﷺ کو اس اونٹنی کا ذکر کرتے ہوئے سنا جو حضرت صالح-على نبينا وعليه أفضل الصلاة والسلام- کو بطور معجزہ دی گئی تھی۔ آپﷺ نے دوران خطبہ اس بدبخت شخص کا بھی ذکر کیا جس نے اس اونٹنی کی ٹانگیں کاٹی تھیں۔ اس کا نام قُدار بن سالف تھا جو کہ قوم کا سب سے بدبخت شخص تھا۔ اس بدبخت کے من جملہ اوصاف میں اس کا بھی ذکر آیا ہے کہ اس کے جیسا کوئی دوسرا بدبخت نہیں تھا، فسادی اور اپنی قوم میں اثر ورسوخ رکھنے والا۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے اپنے خطبے میں فرمایا: تم میں سے ایک شخص اپنی بیوی کو غلام کی طرح مارتا ہ، جو کہ عام طور پر ضربِ شدید (سخت مار) ہوا کرتی ہے۔ حدیث کا سیاق ایک عقل مند کی طرف سے دو امور کے صدور کو بعید تر قرار دیا گیا ہے؛ اپنی بیوی کی سخت پٹائی بھی کرے اور اسی دن یا اسی رات مجامعت بھی کرے۔ کیوں کہ جماع اور بیوی سے ہمبستری یہ اس وقت ہی اچھا لگتا ہے، جب رہن سہن میں ایک دوسرے کے ساتھ رغبت اور باہمی میلان ہو، جب کہ پٹائی سے دوچار ہونے والا شخص عام طور پر پٹائی کرنے والے سے متنفر رہتا ہے۔ اس طرح یہاں ا س بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ ایک مذموم کام ہے۔ اگر مارنا ضروری ہو جائے، تو پھر ہلکی مار ماری جائے کہ باہمی نفرت کی فضا نہ پیدا ہو۔ مارنے اور ادب سکھانے میں افراط سے کام نہ لیا جائے۔ پھر آپﷺ نے ان کو نصیحت کی یعنی انہیں خبردار کیا۔ ہوا خارج ہوجانے پر ہنسنے سے۔ کیوں کہ یہ خلاف مروت ہے اور اس میں ہتک عزت بھی ہے۔ اس کی قباحت بیان کرتے ہوئے فرمایا: تم میں سے کوئی ایسے عمل پر کیوں ہنستا ہے، جسے وہ خود بھی کرتاہے؟۔ کیوں کہ ہنسی تو کسی عجیب وغریب بات پر آتی ہے! اگر صرف ہنسی کے آثار ظاہر ہوں، تو اسے تبسم کہا جاتاہے، اگر اس میں تھوڑی سے زیادتی ہو جائے اور ساتھ میں آواز پیدا ہو جائے، تو اس کو (ضحک) ہنسی کہا جاتا ہے اور اگر آواز بلند ہو جائے تو اسے قہقہہ کہا جاتا ہے۔ جب ریح کا خروج فطری طور پر ہر انسان سے ہوتاہے، تو اس پر ہنسنے کی کیا بات ہے؟

التصنيفات

نکاح, عورتوں سے متعلق احکام