اے ابو ذر! میں تمھیں کمزور سمجھتا ہوں اور مجھے تمھارے لیے بھی وہی بات پسند ہے، جو خود اپنے لیے پسند ہے۔ دو آدمیوں پر کبھی حاکم نہ بننا اور نہ ہی یتیم کے مال کی دیکھ بھال…

اے ابو ذر! میں تمھیں کمزور سمجھتا ہوں اور مجھے تمھارے لیے بھی وہی بات پسند ہے، جو خود اپنے لیے پسند ہے۔ دو آدمیوں پر کبھی حاکم نہ بننا اور نہ ہی یتیم کے مال کی دیکھ بھال کی ذمہ داری لینا۔

ابو ذر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: ”اے ابو ذر! میں تمھیں کمزور سمجھتا ہوں اور مجھے تمہاری لیے بھی وہی بات پسند ہے، جو خود اپنے لیے پسند ہے۔ دو آدمیوں پر کبھی حاکم نہ بننا اور نہ ہی یتیم کے مال کی دیکھ بھال کی ذمہ داری لینا“۔

[صحیح] [اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]

الشرح

ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کررہے ہیں کہ نبی ﷺ نے ان سے فرمایا: ”میں تمھیں کمزور سمجھتا ہوں اور مجھے تمھارے لیے بھی وہی بات پسند ہے، جو خود اپنے لیے پسند ہے۔ دو آدمیوں پر کبھی حاکم نہ بننا اور نہ ہی یتیم کے مال کی دیکھ بھال کی ذمہ داری لینا“۔ یہ تین جملے ہیں جو رسول اللہ ﷺ نے ابو ذر رضی اللہ عنہ سے فرمائے: اول: آپ ﷺ نے ان سے فرمایا: ”میں تمھیں کمزور سمجھتا ہوں“۔ اس نصیحت کو مبنی پر حقیقت صورت حال پر محمول کیا جائے گا۔ کسی آدمی کا کسی دوسرے شخص کو ایسا کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ مثلا تم میں یہ یہ کمزوریاں ہیں؛ بشرطے کہ اس کا یہ کہنا نصیحت کی غرض سے ہو، نہ کہ برا بھلا کہنے اور عار دلانے کےلیے۔ چنانچہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”میں تمھیں کمزور سمجھتا ہوں“۔ دوم: آپ ﷺ نے فرمایا: ”مجھے تمھارے لیے بھی وہی بات پسند ہے، جو خود اپنے لیے پسند ہے“۔ یہ نبی ﷺ کے حسن اخلاق کا ایک مظہر ہے۔ چوں کہ پہلے جملے میں کچھ دل آزاری کا پہلو تھا، اس لیے آپ ﷺ نے فرمایا: ”مجھے تمھارے لیے بھی وہی بات پسند ہے، جو خود اپنے لیے پسند ہے“۔ سوم: ”دو آدمیوں پر کبھی حاکم نہ بننا“۔ یعنی دو آدمیوں پر بھی کبھی امیر نہ بننا۔ اس سے زیادہ پر امیر بننے کی ممانعت تو بطریق اولی ہو گی۔ مفہوم یہ ہے کہ نبی ﷺ نے انھیں امیر بننے سے منع کیا؛ کیوں کہ وہ کمزور تھے، جب کہ امارت کے لیےطاقت ور اور امانت دار شخص کی ضرورت ہوتی ہے۔ طاقت ور اس طرح سے کہ وہ صاحب اقتدار ہو اور اس کی بات میں تیز پن ہو۔ بایں طور کہ جو کہے اسے کر گزرے اور لوگوں کے سامنے کمزوری ظاہر نہ ہونے دے؛ کیوں کہ لوگ جب کسی شخص کو کمزور سمجھنا شروع کردیں، تو ان کے ہاں اس کا احترام باقی نہیں رہتا اور بے وقوف لوگ اس پر جری ہو نے لگتے ہیں۔ تاہم اگر وہ طاقت ور ہو، اللہ کی حدود سے تجاوز نہ کرتا ہو اور نہ اللہ کے عطا کردہ اقتدار میں کوئی کوتاہی برتتا ہو، تو یہ شخص ہی حقیقی امیر ہوتا ہے۔ چہارم: ”اور نہ ہی یتیم کے مال کی دیکھ بھال کی ذمہ داری اٹھانا“۔ یتیم اس بچے کو کہا جاتا ہے، جس کے بالغ ہونے سے پہلے ہی اس کا باپ فوت ہو جائے۔ رسول اللہ ﷺ نے ابو ذر رضی اللہ عنہ کو یتیم کے مال کی ذمے داری اٹھانے سے منع فرمایا؛ کیوں کہ یتیم کے مال کو دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے، جب کہ ابو ذررضی اللہ عنہ کمزور شخص تھے، جو اس کی کما حقہ دیکھ بھال نہیں کر سکتے تھے۔ اس لیے آپ ﷺ نے فرمایا: ”اور نہ ہی یتیم کے مال کی دیکھ بھال کی ذمہ داری اٹھانا“۔ یعنی یتیم کے مال کا نگران نہ بننا، بلکہ یہ ذمے داری کسی اور کے لیے چھوڑ دینا۔ اس میں ابو ذر رضی اللہ عنہ کی تنقیص نہیں ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ تو بھلائی کا حکم دیتے اور برائی سے روکتے۔ ساتھ ہی آپ بہت زاہد اور تقشف اختیار کرنے والے تھے۔ یہ تو بس ایک میدان میں کمزور تھے؛ امارت اور حکومت کا میدان۔

التصنيفات

امامت عظمی کی شرائط