عمر رضی اللہ عنہ مجھے بزرگ بدری صحابہ کے ساتھ مجلس میں بٹھاتے تھے۔ ان میں سے بعض کو یہ ناپسند گزرا۔

عمر رضی اللہ عنہ مجھے بزرگ بدری صحابہ کے ساتھ مجلس میں بٹھاتے تھے۔ ان میں سے بعض کو یہ ناپسند گزرا۔

عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ مجھے بزرگ بدری صحابہ کے ساتھ مجلس میں بٹھا تے تھے۔ ان میں سے کسی کو یہ ناپسند گزرا تو انہوں نے کہا کہ اسے مجلس میں ہمارے ساتھ کیوں بٹھاتے ہیں، اس کے جیسے تو ہمارے بچے ہیں؟ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس کی وجہ تمہیں معلوم ہے۔پھر انہوں نے مجھے ایک دن بلایا اور ان بدری صحابہ کے ساتھ بٹھا دیا۔ میں سمجھ گیا کہ آپ نے مجھے اس دن اس لیے بلایا ہے تاکہ انہیں دکھا سکیں۔ پھر اُن سے پوچھا: اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے؟ ۔ ”إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ“ (الفتح:1)۔ ان میں سے کچھ نے کہا کہ جب ہمیں مدد اور فتح حاصل ہوئی تو اللہ کی حمد اور اس سے استغفار کا حکم دیا گیا ہے۔ اور کچھ لوگ خاموش رہے اور کوئی جواب نہیں دیا ۔ پھر آپ ﷺ نے مجھ سے پوچھا کہ: ابن عباس رضی اللہ عنہما ! کیا تمہارا بھی یہی خیال ہے ؟ میں نے کہا: نہیں۔ پوچھا پھر تمہاری کیا رائے ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ: اس میں رسول اللہ ﷺ کی وفات کی طرف اشارہ ہے۔ اللہ تعالی نے آپ ﷺ کو اس کے بارے میں بتایا ہے اور فرمایا: کہ جب اللہ کی مدد اور فتح آ پہنچے۔ جو کہ آپ کی وفات کی علامت ہو گی تو پھر آپ اپنے پروردگار کی پاکی وتعریف بیان کیجیے اور اس سے بخشش مانگا کیجیے ۔ بے شک وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا کہ میرے علم کے مطابق بھی یہی معنی ہے جو تم نے بیان کیا ہے۔

[صحیح] [اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]

الشرح

عمر رضی اللہ عنہ کا طریقۂ کار یہ تھا کہ وہ صاحب الرائے لوگوں سے ان معاملات میں مشورہ کیا کرتے تھے جن میں آپ کو کوئی اشکال ہوتا اور بدری بزرگوں اور بڑے بڑے صحابہ کے ساتھ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو بھی شامل کیا کرتے تھے جو ان کی بنسبت بہت کم سن تھے۔ وہ اس سے ناراض ہوئے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کیسے ابن عباس رضی اللہ عنہما کو ان کے ساتھ شامل کرتے ہیں اور ان کے بیٹوں کو شامل نہیں کرتے۔ اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے ارادہ کیا کہ انہیں عبد اللہ بن عباس کی علمی قدر و منزلت اور ذہانت و فطانت سے آگاہ کریں۔ انہوں نے انہیں جمع کیا اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کو بھی بلایا اور ان پر اس سورت کو پیش کیا: {إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجاً فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا}۔ (سورہ نصر) ترجمہ: جب اللہ کی مدد اور فتح آجائے اور تو لوگوں کو اللہ کے دین میں جوق در جوق آتا دیکھ لے۔ تو اپنے رب کی تسبیح کرنے میں جُٹ جا، حمد کے ساتھ اور اس سے مغفرت کی دعا مانگ، بیشک وه بڑا ہی توبہ قبول کرنے واﻻ ہے۔‘‘ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے اس سورت کے بارے میں دریافت کیا تو ان کے دو گروہ بن گئے۔ ایک گروہ تو چپ رہا اور ایک گروہ نے کہا کہ: اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ جب نصرت اور مدد آ جائے تو ہم اپنے گناہوں کی مغفرت طلب کریں اور اس کی حمد و تسبیح بیان کریں۔ تاہم عمر رضی اللہ عنہ اس سورت کا اصل مدعا جاننا چاہتے تھے اور ان کا مقصد یہ نہیں تھا کہ وہ الفاظ و کلمات کا معنیٰ معلوم کریں۔ انہوں ںے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ تم اس سورت کے بارے میں کیا کہتے ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ اس میں رسول اللہ ﷺ کی وفات کی طرف اشارہ ہے یعنی اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ آپ ﷺ کی وفات کا وقت قریب آ چکا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت آپ ﷺ کو عطا کی کہ: {إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ} یعنی جب مکہ فتح ہو جائے گا تو یہ تمہاری وفات کی علامت ہو گی چنانچہ۔ {فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا}۔ ترجمہ:’’تو اپنے رب کی تسبیح کرنے لگ حمد کے ساتھ اور اس سے مغفرت کی دعا مانگ، بے شک وه بڑا ہی توبہ قبول کرنے واﻻ ہے‘‘۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ نے کہا: مجھے بھی اس سورت کے بارے میں وہی کچھ معلوم ہے جو تم جانتے ہو۔ اس سے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی فضیلت واضح ہو گئی۔

التصنيفات

قرآن کی تفسیر