إعدادات العرض
ایک شخص نے نبی ﷺ سے اندر آنے کی اجازت چاہی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اسے آنے کی اجازت دے دو۔ یہ اپنے قبیلے کا بہت ہی برا شخص ہے۔
ایک شخص نے نبی ﷺ سے اندر آنے کی اجازت چاہی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اسے آنے کی اجازت دے دو۔ یہ اپنے قبیلے کا بہت ہی برا شخص ہے۔
عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی ﷺ سے اندر آنے کی اجازت چاہی۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”اسے آنے کی اجازت دے دو۔ یہ اپنے قبیلے کا بہت ہی برا شخص ہے۔“
[صحیح] [متفق علیہ]
الترجمة
العربية বাংলা Bosanski English Español فارسی Français Bahasa Indonesia Русский Tagalog Türkçe 中文 हिन्दी Tiếng Việt සිංහල Hausa Kurdîالشرح
ایک آدمی نے نبی ﷺ سے اندر داخل ہونے کی اجازت چاہی تو آپ ﷺ نے فرمایا: اسے آنے دو، یہ اپنے قبیلے کا بہت ہی برا شخص ہے، یا آپ ﷺ نے ”أخو العشيرة“ کی بجائے ”ابْن العشيرة“ فرمایا۔ جب وہ آ بیٹھا تو آپ ﷺ اس کے ساتھ بہت خندہ روئی اور خوش مزاجی سے پیش آئے۔ اس آدمی کے چلے جانے کے بعد ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ ﷺ سے کہا: اے اللہ کے رسول! جب آپ نے اس آدمی کو دیکھا تھا تو آپ نے ایسے کہا تھا جب کہ بعد ازاں آپ اس سے بہت خندہ روئی اور خوش مزاجی سے پیش آئے ہیں، (اس کی کیا وجہ ہے؟)۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اے عائشہ! تم نے مجھے بد گو کب پایا ہے؟ قیامت کے دن اللہ کے نزدیک سب سے برا شخص وہ ہو گا جس سے لوگ اس کے شر سے بچنے کے لئے کنارہ کشی کرلیں۔ یہ شخص فسادی اور فتنہ انگیز لوگوں میں سے تھا اس لئے آپ ﷺ نے اس کی غیر موجودگی میں اس کا ذکر اس انداز میں کیا جس کا وہ حق دار تھا اور فرمایا کہ وہ اپنے قبیلہ کا بدترین شخص ہے۔ آپ ﷺ نے لوگوں کو اس کی فتنہ انگیزی پر متنبہ کرنے کے لئے یہ فرمایا تا کہ وہ اس سے دھوکہ نہ کھا بیٹھیں۔ چنانچہ جب آپ بھی کسی ایسے شخص کو دیکھیں جو برا اور گمراہ ہو لیکن اس نے اپنی فصاحت کی بدولت لوگوں کو مسحور کر رکھا ہو تواس صورت میں آپ کے لئے یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ یہ شخص برا ہے تاکہ لوگ اس سے دھوکہ نہ کھا لیں۔ کتنے ہی ایسے چرب زبان اور فصیح الکلام لوگ ہوتے ہیں جن کا ڈیل ڈول آپ کو بہت بھاتا ہے اور جب وہ کوئی بات کرتے ہیں تو اسے آپ بغور سنتے ہیں لیکن ان میں خیر نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ ایسے شخص کی حقیقتِ حال کو بیان کرنا واجب ہے۔ باقی رہا آپ ﷺ کا اس شخص کے ساتھ نرمی کے ساتھ پیش آنا تو یہ مدارات (دل رکھنے) کے قبیل سے تھا۔ اہل علم کےنزدیک دوسروں کے ساتھ برتاؤ میں مدارات ضروری ہے بخلاف مداہنت کے۔ اس سے مراد وہ مداہنت ہے جس کی وجہ سے کسی واجب سے دستبردار ہونا پڑے یا پھر کسی ممنوعہ کام سے چشم پوشی ہو یا کسی حرام کا ارتکاب ہو۔ ایسا کرنا کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: ﴿وَدُّوا لَوْ تُدْهِنُ فَيُدْهِنُونَ﴾ [سورة القلم: 9] ”وہ تو چاہتے ہیں کہ کہیں آپ نرمی کریں تو وہ بھی نرمی کریں“۔ جب کہ مدارات اور لوگوں کے ساتھ اس انداز میں برتاؤ کرنا جس سے مصلحت کا حصول ہو اور اس سے کوئی برائی بھی مرتب نہ ہوتی ہو تو یہ ایک مشروع عمل ہے۔التصنيفات
سلام کرنے اور اجازت چاہنے کے آداب