إعدادات العرض
امابعد، اللہ کی قسم! میں کسی شخص کو دیتا ہوں اور کسی کو چھوڑ دیتا ہوں۔جب کہ جسے میں چھوڑ دیتا ہوں، وہ مجھے اس شخص سے زیادہ محبوب ہوتاہے، جسے میں دیتا ہوں۔
امابعد، اللہ کی قسم! میں کسی شخص کو دیتا ہوں اور کسی کو چھوڑ دیتا ہوں۔جب کہ جسے میں چھوڑ دیتا ہوں، وہ مجھے اس شخص سے زیادہ محبوب ہوتاہے، جسے میں دیتا ہوں۔
عمر بن تغلب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس کچھ مال یا قیدی لائے گئے، جسے آپ نے تقسیم کردیا۔ کچھ لوگوں کو آپ نے ان میں سے دیا اور کچھ کو نہیں دیا ۔ پھرآپ ﷺ تک یہ بات پہنچی کہ آپ ﷺ نے جن کو نہیں دیا، انہوں نے ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ اس پر آپ ﷺ نے اللہ کی حمد و ثنا کرنے کے بعد فرمایا: اما بعد، اللہ کی قسم ! میں کسی شخص کو دیتا ہوں اور کسی کو چھوڑ دیتا ہوں۔ جب کہ جسے میں چھوڑ دیتا ہوں وہ مجھے اس شخص سے زیادہ محبوب ہوتاہے، جسے میں دیتا ہوں ۔میں کچھ لوگوں کے دلوں میں جو بے صبری پاتا ہوں، اس کی وجہ سے انہیں دیتاہوں اور کچھ لوگوں کو اس بے نیازی اور بھلائی کے سپرد کردیتا ہوں، جو اللہ نے ان کے دلوں میں رکھی ہے۔ عمرو بن تَغلِب انہی لوگوں میں سے ہیں۔ عمرو بن تَغلِب کہتے ہیں کہ : اللہ کی قسم! مجھے یہ پسند نہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی اس بات کے بدلے میں مجھے سرخ اونٹ مل جائیں۔
الترجمة
العربية বাংলা Bosanski English Español فارسی Français Bahasa Indonesia Русский Tagalog Türkçe 中文 हिन्दी Tiếng Việt සිංහල Hausa தமிழ்الشرح
عمرو بن تغلب رضی اللہ عنہ ہمیں بتا رہے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس کچھ مال یا قیدی لائے گئے۔ "سبی" سے مراد دشمن کے وہ قیدی ہیں، جنہیں جنگ میں گرفتار کرکے غلام باندی بنا لیا جاتاہے۔ آپ ﷺ نے انہیں تقسیم کردیا۔ کچھ لوگوں کو دیا اور کچھ کو نہیں دیا؛ یعنی کچھ لوگوں کو ان کی تالیف قلب کے لیے دیا اور کچھ لوگوں کو اللہ تعالی نے جو قوت ایمانی اور یقین عطا کیا تھا، اس پر اعتماد کرتے ہوئے دیے بغیر ہی چھوڑ دیا۔ پھرآپ ﷺ تک یہ بات پہنچی کہ جن کو آپ ﷺ نے نہیں دیا تھا، انھوں نے ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ یعنی انھوں نے آپس میں آپ ﷺ کے اس عمل پرکچھ ناگواری کے انداز میں باتیں کیں، یہ گمان کرتے ہوئے کہ آپ ﷺ نے ان لوگوں کو ان کے کسی خاص دینی امتیاز کی وجہ سے دیا ہے۔ اس پر آپ ﷺ نے انھیں جمع کرکے خطبہ دیا۔ اللہ تعالی کے شایان شان حمد و ثنا بیان کرنے کے بعد فرمایا: ”اللہ کی قسم! میں کسی شخص کو دیتا ہوں اور کسی کودیے بغیرہی چھوڑ دیتاہوں۔ جسے میں دیے بغیر چھوڑ دیتا ہوں، وہ مجھے اس شخص سے زیادہ محبوب ہے، جسے میں دیتاہوں“۔ یہ مراد نہیں کہ جب بعض لوگوں کو دوں اور بعض کو نہ دوں، تو یہ اس بات کی دلیل ہوگی کہ میں دوسروں کے مقابلے میں، ان سے محبت کرتا ہوں۔ بلکہ جن کو میں دیے بغیر چھوڑ دیتاہوں، وہ مجھے ان لوگوں سے زیادہ محبوب ہیں، جنھیں میں دیتا ہوں۔ پھر آپ ﷺ نے بعض کودینے اور بعض کو نہ دینے کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرمایا: میں بعض لوگوں کو ان کے دلوں میں پائی جانے والی بےصبری اور پریشانی کی وجہ سے دیتا ہوں، جو انہیں اس وقت لاحق ہوتی ہے، جب انھیں مال غنیمت میں سے حصہ نہ دیا جائے۔ چنانچہ میں ان کی تالیف قلب اور انھیں خوش کرنے کے لیے دیتا ہوں۔ ”بعض لوگوں کو میں اس بے نیازی کے حوالے کردیتا ہوں، جو اللہ تعالی نے ان کے دلوں میں رکھی ہے“ یعنی کچھ لوگوں کے دلوں میں اللہ تعالی نے جو قناعت اور بے نیازی رکھی ہے، انھیں اس کے سپرد کرتے ہوئے نہیں دیتا۔ ”بھلائی“ سے مراد قوت ایمان و یقین ہے۔ ”عمرو بن تغلب انہیں لوگوں میں سے ہیں“ یعنی وہ لوگ جن کے ایمان پر تکیہ کرتے ہوئے میں انھیں نہیں دیتا، ان میں سے ایک عمرو بن تغلب ہیں۔ ایک اور حدیث میں آتاہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ”میں کسی شخص کو دیتا ہوں، جب کے دوسرا شخص مجھے اس سے زیادہ محبوب ہوتاہے۔ ایسا میں اس اندیشے کی وجہ سے کرتا ہوں کہ کہیں وہ اوندھے منہ آگ میں نہ ڈال دیا جائے“۔ (صحیح مسلم) عمرو رضی اللہ نے جب رسول اللہ ﷺ کو اپنی تعریف کرتے ہوئے سنا تو کہا: اللہ کی قسم! مجھے یہ پسند نہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی اس بات کی بجائے مجھے سرخ اونٹ مل جائیں۔ یعنی اللہ کی قسم! رسول اللہ ﷺ نے اپنی اس ثنا کی بدولت میری جو تکریم کی، اس کا کوئی بدیل مجھے پسند نہیں ہے، چاہے مجھے عرب کا سب سے نفیس مال، سرخ اونٹ ہی کیوں نہ دیے جائیں۔