وہ شخص جھوٹا نہیں ہے جو لوگوں کے مابین صلح کرائے اور اس سلسلے میں اچھی بات ان تک پہنچائے یا اچھی بات کہے۔

وہ شخص جھوٹا نہیں ہے جو لوگوں کے مابین صلح کرائے اور اس سلسلے میں اچھی بات ان تک پہنچائے یا اچھی بات کہے۔

ام کلثوم بنت عقبہ بن ابی معیط رضی اللہ عنہا روایت کرتے ہوئے بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ”وہ شخص جھوٹا نہیں ہے جو لوگوں کے مابین صلح کرائے اور اس سلسلے میں اچھی بات ان تک پہنچائے یا اچھی بات کہے“۔ صحیح مسلم کی روایت میں یہ الفاظ زیادہ ہیں: ”میں نے آپ ﷺ سے ایسی کوئی بات نہیں سنی جس سے ثابت ہو کہ آپ ﷺ نے ان میں سے کسی بات کی اجازت دی ہے جس کو لوگ (جھوٹ) کہتے ہیں ما سوا تین باتوں کے یعنی حالتِ جنگ میں، لوگوں میں صلح صفائی کے لیے اور میاں بیوی کی آپس کی بات چیت کے دوران“۔

[صحیح] [متفق علیہ]

الشرح

اصل بات تو یہی ہے کہ جھوٹ حرام ہے۔ کیونکہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”جھوٹ سے بچو۔ کیونکہ جھوٹ برائی کی طرف لے جاتا ہے اور برائی دوزخ کی طرف۔ آدمی جھوٹ بولتا رہتا ہے اور جھوٹ کے درپہ رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ کے ہاں کذاب لکھ دیا جاتا ہے“۔ (صحیح مسلم)۔ تاہم جھوٹ سے تین امور مستثنی ہیں: 1. وہ جھوٹ جس کا مقصد لوگوں کے مابین صلح کرانا ہو۔ 2. جنگ میں جھوٹ بولنا۔ 3. خاوند اور بیوی کا آپس میں جھوٹ بولنا۔ یہ تین امور ہیں جن میں از روئے حدیث جھوٹ بولنا جائز ہے کیونکہ ان میں فائدہ ہے اور ان سے کوئی برائی جنم نہیں لیتی۔ اول: جھگڑنے والے دو افراد یا دو قبیلوں کے مابین اصلاح کے لیے جھوٹ بولنا بایں طور کہ وہ اچھی بات دوسرے تک پہنچائے اور ان میں سے ہر ایک سے کہے کہ دوسرا اس کی تعریف کر رہا تھا اور اس کا اچھے انداز میں ذکر کر رہا تھا حالانکہ اس نے ایسی کوئی بھی بات نہ سنی ہو تاہم اس کا مقصد یہ ہو کہ وہ ان دونوں کو ایک دوسرے کے قریب لائے اور ان کے مابین موجود نفرت و وحشت کو دور کرے۔ ایسا کرنا جائز ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں جب تک کہ اس کا مقصد اصلاح پیدا کرنا اور دلوں میں موجود دشمنی، رنجش اور نفرت کا ازالہ ہو۔ دوم: دورانِ جنگ جھوٹ بولنا۔ وہ اس طرح کہ وہ ایسے ظاہر کرے کہ اس میں بہت طاقت ہے اور ایسی گفتگو کرے جس سے اس کے ساتھیوں کی بصیرت تیز ہو اور اس کے دشمن کو دھوکا لگے۔ یا پھر یہ کہے کہ مسلمانوں کا لشکر بہت زیادہ ہے اور انہیں بہت کمک مل گئی ہے۔ یا کہے کہ اپنے پیچھے دیکھو، فلاں تمہارے پیچھے تمہیں مارنے کے لیے آ رہا ہے ۔۔۔ یہ سب جائز ہے کیونکہ اس میں اسلام اور مسلمانوں کا بہت فائدہ ہے۔ سوم: آدمی کا اپنی بیوی سے جھوٹ بولنا یا بیوی کا اپنے شوہر سے جھوٹ بولنا۔ مثلاً وہ اس سے کہے تم مجھے سب سے زیادہ محبوب ہو اور مجھے تمہاری جیسی عورت اچھی لگتی ہے یا اسی طرح کے اور الفاظ کہے جن سے ان دونوں کے مابین الفت و محبت جنم لے۔ اسی طرح بیوی کا بھی اپنی شوہر سے اس طرح کی باتیں کہنا جائز ہے کیونکہ اس میں بہت فوائد مضمر ہیں۔ تاہم میاں بیوی کے مابین جھوٹ کے لیے شرط یہ ہے کہ وہ ایسا ہو جس سے الفت و محبت اور ان کی باہمی معاشرت کو دوام حاصل ہو۔ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جہاں تک شوہر کا اپنی بیوی سے اور بیوی کا اپنے شوہر سے جھوٹ بولنا کا تعلق ہے تو اس سے مراد وہ جھوٹ ہے جو اظہار محبت کے لیے بولا جائے یا کسی ایسی شے کا وعدہ کرتے ہوئے بولا جائے جس کا مہیا کرنا اس کے لیے لازمی نہ ہو وغیرہ۔ مرد یا عورت کا اپنے اوپر واجب ہونے والی ذمہ داریوں سے چھٹکارا پانے کے لیے یا پھر کسی ایسی شے کے ہتھیانے کے لیے ایک دوسرے کو دھوکا دینا جو ان کی نہیں ہے تو اس طرح کے جھوٹ کے حرام ہونے پر مسلمانوں کا اجماع ہے۔ حافط ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: علماء کا اتفاق ہے کہ بیوی یا شوہر کے ساتھ جھوٹ بولنے سے مراد وہ جھوٹ ہے جس کا مقصد شوہر یا بیوی پر آنے والی کسی ذمہ داری کا اسقاط نہ ہو یا اس کا مقصد کوئی ایسی شے لینا نہ ہو جو شوہر یا بیوی کی نہ ہو۔

التصنيفات

اخلاقِ حمیدہ/ اچھے اخلاق, مرد و زن کا باہمی تعلق