کھاؤ، صدقہ کرو اور پہنو، لیکن اسراف اور تکبر سے بچو۔

کھاؤ، صدقہ کرو اور پہنو، لیکن اسراف اور تکبر سے بچو۔

عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ”کھاؤ، صدقہ کرو اور پہنو، لیکن اسراف اور تکبر سے بچو“۔

[حَسَنْ] [اسے ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔ - امام بخاری نے اسے صیغۂ جزم کے ساتھ تعلیقاً روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]

الشرح

یہ حدیث کھانے، پینے اور لباس میں اسراف کی حرمت پر دلالت کرتی ہے اور بغیر دکھاوے اور شہرت کے صدقہ کرنے کی تلقین کرتی ہے۔ اسراف کا حقیقی معنی ہے: ہر فعل و قول میں حد سے تجاوز کرنا۔ تاہم خرچ کرنے کے معاملے میں حد سے گزرنے میں اسراف کے لفظ کا استعمال زیادہ مشہور ہے۔ یہ حدیث اللہ تعالی کے اس فرمان سے ماخوذ ہے کہ: ﴿وَكُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا﴾ ”کھاؤ اور پیو لیکن اسراف نہ کرو“۔ اس میں بڑائی اور تکبر کی حرمت کا بھی بیان ہے۔ نیز اس میں انسان کے اپنے نفس کے تئیں بہتر تدبیر اختیار کرنے کے فضائل اور دنیا و آخرت کے لحاظ سے روحانی اور جسمانی مصالح کا بیان ہے۔ کسی بھی شے میں اسراف جسم اور معیشت دونوں کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے اور زیاں کا باعث بنتا ہے، جس کے نتیجے میں انسانی روح کو ضرر پہنچتا ہے؛ کیوں کہ یہ عموما جسم کے تابع ہوتی ہے۔ تکبر سے بھی روح کو ضرر لاحق ہوتا ہے، کیوں کہ اس کی وجہ سے اس میں خود پسندی آتی ہے اور آخرت کے لیے بھی یہ نقصان دہ ہے۔ کیوںکہ یہ گناہ کا سبب ہے اور دنیاوی اعتبار سے بھی یہ ضرر رساں ہے، بایں طور کہ اس کی وجہ سے لوگ نفرت کرنے لگتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے تعلیقا روایت کی ہے کہ : ”جو چاہو، کھاؤ اور جو چاہو، پیو، جب تک کہ دو باتیں تم میں نہ آئیں: اسراف اور تکبر“۔

التصنيفات

نفلی صدقہ