تم نے ’سبّح اسم ربك الأعلى‘، ’والشمس وضحاها‘ اور ’والليل إذا يغشى‘ ( جیسی سورتیں ) پڑھ کر نماز کیوں نہیں پڑھائی، کیوں کہ تمہارے پیچھے بوڑھے، کمزور اور حاجت مند بھی…

تم نے ’سبّح اسم ربك الأعلى‘، ’والشمس وضحاها‘ اور ’والليل إذا يغشى‘ ( جیسی سورتیں ) پڑھ کر نماز کیوں نہیں پڑھائی، کیوں کہ تمہارے پیچھے بوڑھے، کمزور اور حاجت مند بھی نماز پڑھتے ہیں۔

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ کے ساتھ (فرض) نماز پڑھتے پھر واپس جا کر اپنی قوم کے لوگوں کو (وہی) نماز پڑھایا کرتے تھے۔۔۔۔۔۔۔ایک اور روایت میں ہے کہ نبیﷺ نے معاذ رضی اللہ عنہ سے فرمایا: تم نے ’سبّح اسم ربك الأعلى‘، ’والشمس وضحاها‘ اور ’والليل إذا يغشى‘ (جیسی سورتیں ) پڑھ کر نماز کیوں نہیں پڑھائی، کیوں کہ تمہارے پیچھے بوڑھے، کمزور اور حاجت مند بھی نماز پڑھتے ہیں۔

[صحیح] [متفق علیہ]

الشرح

معاذ بن جبل انصاری رضی اللہ عنہ مدینہ کے ایک گوشے میں بنی سلمہ کے گھروں کی جماعت کراتے تھے۔ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ خیر کے کاموں میں بہت رغبت رکھتے تھے اس لیے وہ رسول اللہ ﷺ سے محبت اور آپ ﷺ سے دین سیکھنے کے شوق کی وجہ سے نبی ﷺ کے ساتھ نماز باجماعت ادا کرنے کا بڑا حرص رکھتے۔ فرض نماز نبی کریم ﷺ کے پیچھے ادا کرنے کے بعد وہاں سے نکلتے اور اپنی قوم کے پاس آ کر وہی نماز انہیں پڑھاتے۔ جو ان کے لیے نفل ہو جاتی اور لوگوں کی فرض ہوجاتی۔ رسول اللہ ﷺ کو اس بات کا علم تھا اور آپ ﷺ نے اس کو برقرار رکھا، لیکن ایک دفعہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے لمبی قرأت کردی، جب کہ شریعت اسلامیہ سہولت، آسانی اور عدمِ شدت جیسے اوصاف سے متصف ہے کیوں کہ سختی اور تنگی (لوگوں کو) متنفر کردیتی ہے۔ جب نبی ﷺ کو یہ بات پہنچی کہ معاذ رضی اللہ عنہ لمبی قرأت کرتے ہیں تو انھیں بطور امام قراءت میں تخفیف کی ہدایت دی اور متوسط قراءت کے لیے ان کے سامنے مفصلات ’سبّح اسم ربك الأعلى‘، ’والشمس وضحاها‘ اور ’والليل إذا يغشى‘ جیسی سورتیں بطور مثال بیان کیں۔ کیوں کہ ان کی اقتدا میں سن رشیدہ بوڑھے، کمزور اور ضرورت مند لوگ ہوتے ہیں جن پر لمبی قرأت گراں گزرتی ہے لہذا ان کے ساتھ نرمی اور تخفیف والا معاملہ کرنا بہتر ہے۔ ہاں جب کوئی مسلمان اکیلے نماز ادا کرے تو پھر اپنی مرضی کے مطابق لمبی قراءت کرسکتا ہے۔

التصنيفات

امام اور مقتدی سے متعلق احکام