ابن آدم کے لیے ایسی چیز میں نذر نہیں، جس کا وہ اختیار نہ رکھتا ہو، نہ اُسے ایسے شخص کو آزاد کرنے کا اختیار ہے، جس کا وہ مالک نہ ہو اور نہ اُسے ایسی عورت کو طلاق دینے کا…

ابن آدم کے لیے ایسی چیز میں نذر نہیں، جس کا وہ اختیار نہ رکھتا ہو، نہ اُسے ایسے شخص کو آزاد کرنے کا اختیار ہے، جس کا وہ مالک نہ ہو اور نہ اُسے ایسی عورت کو طلاق دینے کا حق حاصل ہے، جس کا وہ مالک نہ ہو۔

عمرو بن شعیب اپنے باپ سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ابن آدم کے لیے ایسی چیز میں نذر نہیں، جس کا وہ اختیار نہ رکھتا ہو، نہ اُسے ایسے شخص کو آزاد کرنے کا اختیار ہے، جس کا وہ مالک نہ ہو اور نہ اُسے ایسی عورت کو طلاق دینے کا حق حاصل ہے، جس کا وہ مالک نہ ہو۔“

[صحیح] [اسے ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]

الشرح

اس حدیث میں نبی ﷺ نے بیان فرمایا کہ انسان جس کا مالک نہ ہو، اس کے لیے اس میں تصرف اور اس کی تنفیذ درست اور صحیح نہیں ہے۔ وہ چیز جو آدمی کے تصرف میں نہ ہو، اس کے لیے اس کا تصرف جائز اور صحیح نہیں ہے۔ یہی حال نذر کا بھی ہے۔ چنانچہ وہ نذر صحیح اور قابل نفاذ نہیں ہے، جسے مانتے وقت نذر ماننے والا اس کا اختیار نہ رکھے، حتیٰ کہ اگر وہ بعد میں اس کا مالک ہو بھی جائے، تب بھی اسے پورا کرنا ضروری نہیں ہوگا اور نہ اس پر کفارہ واجب ہوگا۔ یہی معاملہ غلام آزاد کرنے کا ہے کہ آدمی جس غلام کا مالک نہ ہو، وہ اسے آزاد کر نہیں سکتا؛ کیوں کہ اس کا تصرف بجا نہیں ہے۔ نیز یہی حال طلاق کا ہے کہ آدمی کے لیے کسی اجنبی عورت کو، جو اس کی بیوی نہ ہو، طلاق دینا صحیح نہیں ہے؛ کیوں کہ ”طلاق کا اختیار اسی کو ہے، جو پنڈلی تھامے“ (یعنی شوہر) اور آپ ﷺ نے فرمایا: ”(اس عورت کو )طلاق دینے کا حق نہیں ہے، جس کا وہ مالک نہ ہو۔“

التصنيفات

نذریں, طلاق کے احکام اور مسائل