میں مسجد میں سویا ہوا تھا۔ میرے جسم کے اوپر میری ایک کالے رنگ کی چوخانہ چادر پڑی ہوئی تھی، جس کی قیمت تیس درہم تھی۔ اسی بیچ ایک آدمی آیا اور اسے جھپٹا مار کر لے اڑا۔…

میں مسجد میں سویا ہوا تھا۔ میرے جسم کے اوپر میری ایک کالے رنگ کی چوخانہ چادر پڑی ہوئی تھی، جس کی قیمت تیس درہم تھی۔ اسی بیچ ایک آدمی آیا اور اسے جھپٹا مار کر لے اڑا۔ لیکن وہ پکڑا گیا۔ اسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے حاضر کیا گیا، تو آپ نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا

صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں مسجد میں سویا ہوا تھا۔ میرے جسم کے اوپر میری ایک کالے رنگ کی چوخانہ چادر پڑی ہوئی تھی، جس کی قیمت تیس درہم تھی۔ اسی بیچ ایک آدمی آیا اور اسے جھپٹا مار کر لے اڑا۔ لیکن وہ پکڑا گیا۔ اسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے حاضر کیا گیا، تو آپ نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا۔ وہ کہتے ہیں: تب میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا : کیا آپ محض تیس درہم کی وجہ سے اس کا ہاتھ کاٹیں گے؟ میں اسے وہ چادر ادھار بیچ دیتا ہوں! اس پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : "پھر اسے میرے سامنے لانے سے پہلے ہی تم نے یہ کام کیوں نہیں کیا؟"

[صحیح] [اسے ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام نسائی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]

الشرح

صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ مسجد میں سوئے ہوئے تھے اور ان کے جسم پر ایک کالے رنگ کی چوخانہ چادر پڑی ہوئی تھی۔ اسی بیچ ایک چور آیا اور سے جھپٹا مار کر لے بھاگا۔ پھر چور کو پکڑ کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس لایا گیا، تاکہ اس پر چوری کی حد جاری کی جا سکے۔ لیکن صفوان رضی اللہ عنہ کو اس پر رحم آ گیا، لہذا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: کیا آپ اس کا ہاتھ میری اس چادر کی وجہ سے کاٹ دیں گے، جس کی قیمت محض تیس درہم ہے؟ میں اسے یہ چادر ادھار بیچ دیتا ہوں اور قیمت وہ اپنی حالت بہتر ہونے پر ادا کر دے گا!! اس پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تو تم نے اسے میرے پاس لائے جانے سے پہلے ہی معاف کیوں نہ کر دیا؟ کیونکہ حدود کے معاملے جب حاکم تک پہنچ جائیں، تو معاف کرنے سے کچھ فائدہ نہیں ہوتا۔

التصنيفات

اقامت حدود کی شرائط, حدِ سرقہ/ چوری کی حد