کسی بندے کا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے کم نہیں ہوتا۔ جس شخص پر ظلم کیا جائے اور وہ اس ظلم و زیادتی پر صبر کرے، تو اللہ تعالیٰ اس کی عزت بڑھا دیتا ہے اور جس شخص نے…

کسی بندے کا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے کم نہیں ہوتا۔ جس شخص پر ظلم کیا جائے اور وہ اس ظلم و زیادتی پر صبر کرے، تو اللہ تعالیٰ اس کی عزت بڑھا دیتا ہے اور جس شخص نے اپنے نفس پر سوال کا دروازہ کھولا (یعنی بلا ضرورت مانگا)، اللہ تعالیٰ اس کے لیے فقر و افلاس کا دروازہ کھول دیتا ہے۔

ابو کبشہ عمرو بن سعد انماری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تین باتیں ہیں، جن کی حقانیت و صداقت پر میں قسم کھا تاہوں اور میں تم سے ایک بات کہتا ہوں جسے تم یاد رکھنا اور اس پر عمل پیرا ہونا؛ بندے کا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے کم نہیں ہوتا۔ (دوسری بات یہ کہ) جس شخص پر ظلم کیا جائےاور وہ اس ظلم و زیادتی پر صبر کرے، تو اللہ تعالیٰ اس کی عزت بڑھا دیتا ہے اور جس شخص نے اپنے نفس پر سوال کا دروازہ کھولا (یعنی بلا ضرورت مانگا)، اللہ تعالیٰ اس کے لیے فقر و افلاس کا دروازہ کھول دیتا ہے،-یا اسی طرح کی کچھ بات کہی- اور ایک بات میں تم سے کہتا ہوں، تم اسے یاد رکھنا۔ فرمایا: یہ دنیا بس چار آدمیوں کے لیے ہے۔ ایک تو وہ بندہ جسے اللہ تعالیٰ نے مال و زر بھی عطا کیا اور علم کی دولت سے بھی نوازا۔ پس وہ اپنے مال ودولت کے بارے میں اللہ سے ڈرتا ہے۔ اس کے ذریعہ اپنے قرابت داروں اور عزیزوں کے ساتھ صلہ رحمی کرتا ہے اور اس میں اللہ کا حق ادا کرتا ہے۔ یہ شخص سب سے بلند مرتبے والا ہے۔ دوسرا وہ بندہ ہے، جسے اللہ نے علم دیا۔ مال و دولت محروم رکھا۔ مگر اس کی نیت سچی ہے۔ وہ کہتا ہے: اگر میرے پاس مال ہوتا، تو میں فلاں شخص جیسا کام کرتا۔ ایسے شخص کو اس کی نیت کے مطابق بدلہ ملے گا اوران دونوں کا اجر برابر ہوگا۔ تیسرا بندہ وہ ہے، جسے اللہ نے صرف مال دیا اور علم سے محروم رکھا۔ وہ علم نہ ہونے کی وجہ سے اپنے مال کے بارے بے راہ روی کا شکار ہو جاتا ہے۔ وہ اپنے مال کے سلسلے میں نہ تو اپنے رب سے ڈرتا ہے، نہ قرابت داروں سے صلہ رحمی کرتا ہے اور نہ ہی اس میں موجود اللہ کے حق کا پاس و لحاظ رکھتا ہے۔ یہ مرتبے کے لحاظ سے سب سے گھٹیا شخص ہے۔ چوتھا شخص وہ ہے، جسے اللہ نے نہ تو مال دیا اور نہ ہی علم۔ وہ کہتا ہے کہ اگر میرے پاس مال ہوتا تو میں بھی فلاں شخص کی طرح کام کرتا۔ اس کا معاملہ اس کی نیت کے مطابق ہوگا اور ان دونوں کا گناہ برابر ہوگا۔

[صحیح] [اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔]

الشرح

نبی ﷺ نے تین خصلتوں پر قسم اٹھائی اور صحابہ کرام کو ایک اور بات بھی بتائی۔ وہ تین خصلتیں یہ ہیں: 1۔ بندے کا مال صدقہ دینے سے کم نہیں ہوتا۔ یعنی صدقہ دینے کی وجہ سے اس کی برکت میں کمی نہیں ہوتی۔ 2۔ جب کسی بندے پر ظلم کیا جائے اور وہ اس پر صبر کرے، تو اللہ تعالی اس کی عزت میں اضافہ کرتا ہے۔ اگر اس ظلم میںک چھ بے عزتی بھی شامل ہو تو اللہ تعالی اسے عزت بخشتا ہے اور ظالم کو ذلیل کرتا ہے۔ 3۔ جب کوئی شخص بلا ضرورت لوگوں سے، صرف مال و دولت میں اضافے کے لیے مانگنا شروع کردیتا ہے، تو اللہ تعالی اسے فقر و فاقہ میں مبتلا کر دیتا ہے۔ اس کے لیے کسی اور ضرورت کا دروازہ کھول دیتا ہے یا اس سے کوئی نعمت چھین لیتا ہے۔ پھر آپ ﷺ نے بتایا کہ دنیا چار قسم کے لوگوں کے لیے ہے: 1- وہ جسے اللہ تعالی نے مال اور علم دونوں عطا کیا ہے، پس وہ شخص صحیح جگہ اس مال کو خرچ کرنے میں احتیاط کرتا ہے، اپنے علم پر عمل پیرا ہوتا ہے اور اپنے رشتہ داروں کے ساتھ صلح رحمی کرتا ہے۔ یہ شخص سب سے بلند مرتبہ والا ہے۔ 2- وہ بدہ جسے اللہ تعالی نے علم تو عطا کیا ہے لیکن مال عطا نہیں کیا، وہ اپنی نیت میں سچا ہے وہ یہ کہتا ہے کہ اگر میرے پاس بھی مال ہوتا تو میں اس پہلي آدمی کی طرح اسے خرچ کرتا، پس وہ اپنی تیت کے مطابق ہی ہوگا، پہلا اور دوسرا شخص اجر وثواب میں برابر ہیں۔ 3- تیسرا وہ شخص ہے جسے اللہ تعالی نے مال تو عطا کیا ہے لیکن علم نہیں دیا، پس وہ مال کے معاملہ میں بغیر علم کے بھٹک جاتا ہے، اس مال کے سلسلہ میں اپنے رب سے ڈرتا نہیں، نہ صلہ رحمی کرتا ہے اور نہ ہی اللہ تعالی کا کوئی حق وہ جانا ہے، یہ شخص سب سے بدترین مرتبہ کا ہے۔ 4- چوتھا آدمی وہ ہے جسے اللہ تعالی نے نہ ہی مال عطا کیا ہے اور نہ ہی اسے علم سے نوازا ہے، وہ کہتا ہے کہ اگر میرے پاس مال ہوتا تو میں تیسرے شخص کی طرح اسے خرچ کرتا، پس وہ اپنی نیت کے مطابق ہے اور ان دونوں (تیسرے اور چوتھے شخص) کا گناہ برابر ہے۔

التصنيفات

فضائل و آداب, قلبی اعمال کے فضائل