اللہ کی طرف سے رحم مادر پر ایک فرشتہ مقرر ہے، جو کہتا ہے کہ اے رب! یہ نطفہ ہے۔ اے رب! اب یہ علقہ (جما ہوا خون) بن گیا ہے۔ اے رب! اب مضغہ (گوشت کا ٹکڑا) بن گیا ہے۔ پھر جب اللہ…

اللہ کی طرف سے رحم مادر پر ایک فرشتہ مقرر ہے، جو کہتا ہے کہ اے رب! یہ نطفہ ہے۔ اے رب! اب یہ علقہ (جما ہوا خون) بن گیا ہے۔ اے رب! اب مضغہ (گوشت کا ٹکڑا) بن گیا ہے۔ پھر جب اللہ تعالی چاہتا ہے کہ اس کی پیدائش پوری كر دے، تو وہ پوچھتا ہے: اے رب! یہ لڑکا ہو گا یا لڑکی؟ بدبخت ہو گا یا نیک بخت؟ اس کا رزق کتنا ہے؟ اس کی عمر کتنی ہو گی؟ اس طرح یہ سب باتیں اس کی ماں کے پیٹ ہی میں لکھ دی جاتی ہیں۔

انس ابن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ کی طرف سے رحم مادر پر ایک فرشتہ مقرر ہے، جو کہتا ہے کہ اے رب! یہ نطفہ ہے۔ اے رب! اب یہ علقہ (جما ہوا خون) بن گیا ہے۔ اے رب! اب مضغہ (گوشت کا ٹکڑا) بن گیا ہے۔ پھر جب اللہ تعالی چاہتا ہے کہ اس کی پیدائش پوری كر دے تو وہ پوچھتا ہے: اے رب! یہ لڑکا ہو گا یا لڑکی؟ بدبخت ہو گا یا نیک بخت؟ اس کا رزق کتنا ہے؟ اس کی عمر کتنی ہو گی؟ اس طرح یہ سب باتیں اس کی ماں کے پیٹ ہی میں لکھ دی جاتی ہیں“۔

[صحیح] [متفق علیہ]

الشرح

نبی ﷺ فرما رہے ہیں کہ اللہ تعالی نے رحم مادر پر ایک فرشتہ مقرر کر رکھا ہے۔ یعنی اللہ کی طرف سے فرشتوں میں سے ایک فرشتہ رحم مادر کے امور کو سنبھالتا ہے۔ رحم سے مراد وہ جگہ ہے، جہاں ماں کے پیٹ میں بچہ پرورش پاتا ہے۔ وہ فرشتہ کہتا ہے: ”أي ربّ نطفة“ یعنی یہ نطفہ ہے۔ نطفہ سے مراد مرد کا مادہ منویہ ہے۔ یہی مفہوم اس کے بعد والے جملے کا بھی ہے کہ: ”أي ربّ علقة“ یعنی اے رب! یہ علقہ بن چکا ہے۔ علقہ سے مراد گاڑھا خون ہے۔ پھر وہ کہتا ہے: ”أي ربّ مضغة“ یعنی اے رب یہ مضغہ بن چکا ہے۔ مضغہ گوشت کے ٹکڑے کو کہا جاتا ہے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ ان ادوار میں سے ہر ایک کی مدت چالیس دن ہے۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ”جب اللہ اس کی پیدائش کو مکمل کرنا چاہتا ہے“ یعنی اس مضغہ کی پیدائش کو، کیوںکہ ان ادوار میں سے آخری دور یہی ہوتا ہے۔ 'القضاء' سے مراد ہے اس کی پیدائش کو پورا کرنا، بایں طور کہ اس میں روح پھونک دی جائے۔ جیسا کہ اس کی وضاحت ایک اور روایت سے ہوتی ہے۔ ایسا ایک سو بیس دن کے مکمل ہونے کے بعد ہوتا ہے۔ پھر فرشتہ پوچھتا ہے: ”أي رب أذكر أم أنثى“ یعنی اے رب! میں اسے مرد لکھوں یا عورت؟ ”أشقي أم سعيد“ یعنی آیا میں اسے اہل دوزخ میں سے ایک بدبخت لکھوں یا پھر جنتیوں میں سے ایک خوش بخت؟ ”فما الرزق“ یعنی اس کا رزق کم ہے یا زیادہ اور کتنا ہے؟ ”فما الأجل“ یعنی اس کی عمر کتنی ہے، لمبی ہے یا مختصر؟ ”فيكتب كذلك في بطن أمه“ یعنی بچہ ابھی ماں کے پیٹ میں ہی ہوتا ہے کہ یہ سب ذکر کی گئی اشیا اللہ تعالی کے حکم کے مطابق لکھ دی جاتی ہیں۔

التصنيفات

توحیدِ ربوبیت, فرشتے