إعدادات العرض
1- اللہ کی طرف سے رحم مادر پر ایک فرشتہ مقرر ہے، جو کہتا ہے کہ اے رب! یہ نطفہ ہے۔ اے رب! اب یہ علقہ (جما ہوا خون) بن گیا ہے۔ اے رب! اب مضغہ (گوشت کا ٹکڑا) بن گیا ہے۔ پھر جب اللہ تعالی چاہتا ہے کہ اس کی پیدائش پوری كر دے، تو وہ پوچھتا ہے: اے رب! یہ لڑکا ہو گا یا لڑکی؟ بدبخت ہو گا یا نیک بخت؟ اس کا رزق کتنا ہے؟ اس کی عمر کتنی ہو گی؟ اس طرح یہ سب باتیں اس کی ماں کے پیٹ ہی میں لکھ دی جاتی ہیں۔
2- فرشتوں کو نور سے پیدا کیا گیا، جنات کو آگ کے دہکتے شعلے سے پیدا کیا گیا اور آدم کو اس شے سے پیدا کیا گیا ہے، جس کی صفت (اللہ تعالیٰ نے) تمھیں بیان فرمائی ہے (یعنی خاک سے)۔
3- اس قافلے کے ساتھ فرشتے نہیں ہوتے جس میں کتا اور گھنٹی ہو۔
4- رسول اللہ ﷺ، جو صادق اور مصدوق ہیں، نے بیان فرمایا: ’’تم میں سے ہر ایک کی پیدائش کی بنیاد اس کی ماں کے پیٹ میں (نطفہ امتزاج کی شکل میں) چالیس دن اور چالیس رات تک رہتی ہے
5- جو کچھ میں دیکھتا ہوں تم نہیں دیکھتے۔ بے شک آسمان چرچرا رہا ہے اور اس کو حق ہے کہ وہ چرچرائے، آسمان میں چار انگشت کے برابر بھی ایسی جگہ نہیں جہاں کوئی نہ کوئی فرشتہ اللہ کے حضور اپنا سر سجدہ ریز کیے ہوئے نہ پڑا ہو۔
6- جبریل علیہ السلام نبی کریم ﷺ کے پاس تشریف لائے اور پوچھا: آپ اپنے یہاں اہل بدر کو کیسا سمجھتے ہیں؟۔ آپ ﷺ نے جواب دیا: وہ (ہمارے ہاں ) سب سے بہتر مسلمانوں میں سے ہیں۔
7- جبریل علیہ السلام نبی اکرم ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک انھوں نے اوپر سے ایک آواز سنی۔
8- مجھے اجازت ملی ہے کہ میں عرش کے اٹھانے والے فرشتوں میں سے ایک فرشتے کا حال بیان کروں، اس کے کان کی لو سے اس کے مونڈھے تک کا فاصلہ سات سو برس کی مسافت کا ہے۔
9- اللہ تعالیٰ کے کچھ فرشتے ہیں جو زمین میں گھومتے رہتے ہیں، وہ مجھ تک میرے امتیوں کا سلام پہنچاتے ہیں۔
10- یہی وہ شخص ہیں جن کے لیے عرشِ الٰہی ہل گیا، آسمان کے دروازے کھول دیے گئے، اور ستر ہزار فرشتے ان کے جنازے میں شریک ہوئے، (پھر بھی قبر میں) انہیں ایک بار بھینچا گیا، پھر (یہ عذاب) ان سے جاتا رہا۔
11- ہم لوگ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس رقعوں سے قرآن جمع کیا کرتے تھے۔ تو ایک بار آپ نے کہا : "شام کے لیے سعادت و خوشخبری ہے"۔
12- جتنا تم ہم سے اب ملتے ہو اس سے زیادہ ملنے میں تمھارے لیے کیا رکاوٹ ہے؟
13- میں نے جبریل کو سدرۃ المنتہیٰ کے پاس دیکھا، ان کے چھ سو پر تھے۔
14- میں نے جبریل علیہ السلام کو سدرۃ المنتہیٰ کے پاس دیکھا۔ ان کے چھ سو پر تھے۔ ان کے پر سے مختلف رنگ کے یاقوت اور موتی گر رہے تھے۔
15- معراج کی رات جب میرا گزر ملأ اعلی میں جبرائیل کے پاس سے ہوا تو اللہ عز و جل کے خوف سے ان کی کیفیت ایسی تھی جیسے بوسیدہ ٹاٹ ہوتا ہے۔
16- تمہارے ساتھی حنظلہ کو فرشتے غسل دے رہے ہیں، ان کے بیوی سے (اس کا سبب) پوچھو۔
17- جب آدم علیہ السلام وفات پا گئے تو فرشتوں نے انہیں پانی سے طاق مرتبہ غسل دیا اور ان کے لیے قبر تیار کی اور کہا کہ یہی سنت ان کی اولاد میں باقی رہے گی۔
18- اُسید بن حضیر رضی اللہ عنہ ایک رات اپنے کھجوروں کے کھلیان میں قرآن پڑھ رہے تھے کہ ان کا گھوڑا بدکنے لگا، آپ رضی اللہ عنہ نے پھر پڑھا وہ پھر بدکنے لگا، آپ نے پھر پڑھا وہ پھر بدکنے لگا، اسید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : میں ڈرا کہ کہیں وہ یحییٰ کو کچل نہ ڈالے، میں اس کے پاس جاکر کھڑا ہو گیا، میں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک سائبان کی طرح کوئی چیز میرے سر پر ہے، وہ چراغوں سے روشن ہے اور وہ اوپر کی طرف چڑھنے لگا یہاں تک کہ میں اسے پھر نہ دیکھ سکا۔
19- نبی ﷺ نے بدر کی لڑائی میں فرمایا تھا کہ یہ ہیں جبریل (علیہ السلام) اپنے گھوڑے کا سر تھامے ہوئے اور آلاتِ حرب سے لیس ہیں۔
20- گویا کہ میں دیکھ رہا ہوں غبار کی طرف جو بنی غنم کی گلیوں میں اٹھی تھی وہ حضرت جبریل علیہ السلام کے قافلے کی تھی یہ اس وقت کا ذکر ہے جب رسول اللہ ﷺ بنی قریظہ سے لڑنے کے لیے چلے۔