کیا تجھے یہ پسند نہیں کہ جو تجھ کو جوڑے میں بھی اسے جوڑوں اور جو تجھے توڑے میں بھی اسے توڑ دوں۔

کیا تجھے یہ پسند نہیں کہ جو تجھ کو جوڑے میں بھی اسے جوڑوں اور جو تجھے توڑے میں بھی اسے توڑ دوں۔

ابو ہُریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ”اللہ تعالیٰ نے مخلوق پیدا کی، جب وہ اس کی پیدائش سے فارغ ہوا تو رحم نے کھڑے ہو کر رحمٰن کے دامن میں پناہ لے لی۔ اللہ تعالیٰ نے اس سے فرمایا کیا تجھے یہ پسند نہیں کہ جو تجھ کو جوڑے میں بھی اسے جوڑوں اور جو تجھے توڑے میں بھی اسے توڑ دوں۔ رحم نے عرض کیا، ہاں اے میرے رب! اللہ تعالیٰ نے فرمایا، پھر ایسا ہی ہو گا۔ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر تمہارا جی چاہے تو یہ آیت پڑھ لو: ”فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِنْ تَوَلَّيْتُمْ أَنْ تُفْسِدُوا فِي الأَرْضِ وَتُقَطِّعُوا أَرْحَامَكُمْ“ اور تم سے یہ بھی بعید نہیں کہ اگر تم کو حکومت مل جائے تو تم زمین میں فساد برپا کر دو اور رشتے ناتے توڑ ڈالو‘‘۔ (سورہ محمد:22)۔اور صحیح بخاری کی روایت میں ہے: اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ (ہاں کیا تم اس پر راضی نہیں کہ) میں اس سے جوڑوں گا جو تم سے اپنے آپ کو جوڑے اور اس سے توڑ لوں گا جو تم سے اپنے آپ کو توڑ لے؟۔

[صحیح] [متفق علیہ]

الشرح

«خَلَقَ اللهُ الخلقَ، فلمَّا فرغَ منه» یعنی اللہ تعالی مخلوقات کو پیدا کرکے فارغ ہوا، یہ جملہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ متعین وقت میں ہوا۔ اگرچہ اللہ کی قدرت کے سامنے کوئی حدبندی نہیں اور نہ ہی اس کو ایک حالت دوسری حالت سے غافل کرسکتی ہے۔ تاہم اس کی حکمت کا تقاضہ یہ ہے کہ وہ کسی کام کے لیے وقت متعین کرے۔یہ ان دلائل میں سے ہے جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے افعال اس کی مشیّت کے ساتھ معلق ہیں۔ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو وہ چیز کرتا ہے۔ «لما فرغ» کا مطلب یہ نہیں کہ تمام چیزوں کی تخلیق مکمل ہوچکی، بلکہ اللہ تعالیٰ کی مخلوقات وقتاً فوقتاً پیدا ہوتی رہتی ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا علم ان کے بارے میں پہلے سے ہے اور اس کی تقدیر پہلے سے لکھی جاچکی ہے۔ بعد میں ہر چیز اس کی مشیّت سے ہوتی ہے اور ہوتا وہی ہے جو پہلے اس کے علم میں تھا، اس کی تقدیر میں لکھا گیا تھا، صرف اسی کی چاہت سے وہ چیز ہو جاتی ہے۔ «قامت الرَّحِمُ فأخذت بحَقْو الرَّحمن، فقال له: مَه» رحم کی طرف منسوب افعال جیسے کھڑا ہونا اور بات کرنا۔ ظاہری حدیث کا تقاضا یہ ہے کہ اسے حقیقت پر محمول کیا جائے، گر چہ رحمت ایک معنوی چیز ہے جو لوگوں کے ساتھ قائم رہتی ہے۔ تاہم اللہ تعالیٰ کی قدرت کو انسانی عقل کے ترازو میں تولا نہیں جا سکتا۔ یہ حدیث فی الجملہ ان احادیثِ صفات میں سے ہے جن کے بارے میں علماء نے صراحت کی ہے کہ یہ جیسے وارد ہوئی ویسے ہی چلی آ رہی ہے اور اس کے موجب (لازمہ) کے خلاف جو چیز ہوتی ہے اس کی علماء نفی کرتے ہیں۔ ظاہری حدیث کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے لیے بھی چمڑے، کاٹن اور روئی کا بنا ہوا کوئی ازار اور چادر ہوتی ہے جیسے لوگ پہنتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ ۖ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ۔ (ترجمہ: اس جیسی کوئی چیز نہیں وه سننے اور دیکھنے واﻻ ہے)۔ «قالت: هذا مقامُ العائذِ بك من القَطِيعة» یہ بہت عظیم جگہ ہے اور اللہ تعالیٰ کی پناہ سب سے بڑی پناہ ہے۔ یہ صلہ رحمی کی عظمت اور قطعی رحمی کے بڑے گناہ ہونے پر دلالت کرتی ہے۔ القطيعة: صلہ رحمی نہ کرنے کو کہتے ہیں۔ صلہ رحمی: رشتہ داروں کے ساتھ احسان، محبت، ان سے قریب ہونے، ان کی مدد کرنے، ان سے تکلیف دور کرنے اور ان کو دنیا و آخرت کے فائدے پہنچانے کو کہتے ہیں۔ «قال: ألَا تَرْضَيْنَ أنْ أصِلَ مَن وصلكِ، وأقطعَ مَن قطعكِ، قالت: بلى يا ربِّ، قال: فذاك» جس نے صلہ رحمی کی اللہ اس کے ساتھ صلہ رحمی کرے گا اور جس سے اللہ صلہ رحمی کرے، وہ دنیا و آخرت کی سعادت اور بھلائی کو پہنچ چکا۔ یقیناً اس کا اختتام جنت الفردوس میں اپنے رب کے جوار میں جگہ ملنا ہے۔ اس لیے کہ (جنت میں) پہنچنے کا آخری مرحلہ اپنے رب کے چہرے کی طرف دیکھنا ہے۔ اور جو شخص قطع تعلقی کرتا ہے اللہ اس سے قطع تعلقی کرے گا، اور جس سے اللہ تعالیٰ قطع تعلقی کرے وہ اللہ کے دشمن شیطان مردود کے ساتھ راندۂ درگاہ ہوگا۔

التصنيفات

توحيدِ اسماء وصفات