نبی ﷺ نے بنی اسرائیل کے ایک شخص کا ذکر فرمایا، اس نے بنی اسرائیل کے دوسرے شخص سے ایک ہزار اشرفی قرض مانگا۔

نبی ﷺ نے بنی اسرائیل کے ایک شخص کا ذکر فرمایا، اس نے بنی اسرائیل کے دوسرے شخص سے ایک ہزار اشرفی قرض مانگا۔

ابو ہريرہ رضي الله عنہ سے روایت ہےکہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے بنی اسرائیل کے ایک شخص کا ذکر فرمایا۔ اس نے بنی اسرائیل کے دوسرے شخص سے ایک ہزار اشرفی قرض مانگا، اس شخص نے گواہوں کو طلب کیا تاکہ وہ ان کو گواہ بنالے قرض مانگنے والا کہنے لگا کہ اللہ تعالیٰ گواہ کے طور پر کافی ہے وہ کہنے لگا کہ اچھا کسی کی ضمانت دے دو قرض مانگنے والے نے جواب دیا کہ اللہ ہی ضمانت کے لیے کافی ہے، اس نے کہا کہ تم سچ کہتے ہو یہ کہہ کر ایک معین مدت کے لیے اس نے اسے ایک ہزار اشرفیاں دے دیں، پھر جس نے قرض لیا تھا اس نے سمندر کا سفر کیا اور اپنا کام پورا کر کے یہ چاہا کہ جہاز پر سوار ہو کر اپنے کیے ہوئے وعدہ پر پہنچ جائے اور قرض ادا کرے، لیکن اسے کوئی جہاز نہ ملا، چنانچہ اس نے ایک لکڑی اٹھا لی اور اس میں کریدا اس میں ایک ہزار اشرفیاں اور ایک خط رکھا اور اس کے منہ کو اچھی طرح بند کر دیا اور سمندر پر آیا اور کہنے لگا کہ اے اللہ ! تو جانتا ہے میں نےفلاں شخص سے ہزار اشرفیاں قرض لی تھیں اور اس نے مجھ سے ضمانت مانگی تھی میں نے کہا تھا اللہ ضمانت کے لیے کافی ہے وہ اس پر راضی ہو گیا تھا، اس نے مجھ سے گواہ طلب کیے تھے، چنانچہ میں نے کہا اللہ گواہ کے طور پر کافی ہے، تو وہ تجھ سے راضی ہو گیا تھا، میں نے بہت کوشش کی کہ کوئی جہاز ملے اور میں اس کے قرض کو ادا کر دوں لیکن میں کیا کروں جہاز ہی نہیں ملا، اب میں اس مال کو تیرے سپرد کرتا ہوں، اس نے یہ کہہ کر اس لکڑی کوسمندر میں پھینک دی یہاں تک کہ وہ اس میں ڈوب گئی، پھر وہ لوٹ کر چلا آیا، اس وقت بھی وہ اپنے شہر کے لیے جہاز ڈھونڈھتا رہا۔ اور وہ شخص جس نے قرض دیا تھا وہ سمندر پر اس خیال سے گیا کہ کوئی جہاز آئے اور اس کی اشرفیاں لائے، کیا دیکھتا ہے کہ وہی لکڑی جس میں مال موجود تھا نظر آئی، اس نے اسے جلانے کے لیے اٹھالی، جب اس کو چیرا تو اس میں اشرفیاں اور خط کو پایا، پھر وہ شخص جس نے قرض لیا تھا وہ ایک ہزار اشرفیاں لے کر آیا اور کہنے لگا اللہ کی قسم! میں نے بہت کوشش کی کہ آپ کی اشرفیاں واپس کر سکوں لیکن جس جہاز میں آیا اس سے پہلے کوئی جہاز نہ ملا، تب اس قرض دینے والے نے کہا تو نے میرے پاس کچھ بھیجا تھا؟، اس نے کہا کہ میں آپ کو بتا رہا ہوں کہ جس جہاز پر میں آیا ہوں اس سے قبل مجھے کوئی جہاز نہ ملا، قرض دینے والے نے کہا اللہ نے وہ اشرفیاں پہنچا دی ہیں جو تو نے ایک لکڑی میں رکھ کر بھیجی تھیں، پھر وہ اشرفیاں لے کر اطمینان کے ساتھ لوٹ گیا۔

[صحیح] [اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]

الشرح

نبی ﷺ نے بنی اسرائیل کے ایک شخص کا ذکر فرمایا، اس نے بنی اسرائیل کے دوسرے شخص سے ایک ہزار اشرفیاں بطور قرض مانگا قرض دینے والے نے کہا کہ کوئی گواہ لے آؤ تاکہ وہ گواہ رہے کہ تم نے مجھ سے ایک ہزار دینار قرض لیا ہے۔ قرض مانگنے والے نے کہا: ”اللہ تعالی ہی گواہ کے طور پر کافی ہے“ یعنی یہ بات ہمارے لیے کافی ہے کہ اللہ تعالی ہم پر گواہ ہے، پھر قرض دینے والے نے کہا کہ کسی ضمانت دینے والے کو لے آؤ جو ضمانت دے، اس نے کہا: ”اللہ کی ضمانت کافی ہے“ یعنی یہ کافی ہے کہ ضامن اللہ تعالی رہے، اس نے کہا کہ تو سچ کہتا ہے اور اس کو ہزار اشرفیاں ایک متعین مدت کے لیے دے دیے، پھر جس نے قرض لیا تھا اس نے اس مال کے ساتھ سمندر کا سفر کیا تاکہ تجارت کر سکے، پھر جب قرض کی ادائیگی کا وقت آپہنچا جہاز کو تلاش کرنے لگا تاکہ قرض دینے والے تک پہنچ جائے، لیکن اسے کوئی جہاز نہ ملا، چنانچہ اس نے ایک لکڑی اٹھا لی اور اس کو کریدا ایک ہزار اشرفیاں اور ایک خط اس میں رکھا جس میں لکھا ’’ فلان کی جانب سے فلان کے لیے خط۔ بے شک میں نے اس میں تمہارا مال اس نمائندہ وکیل کو سونپ دیا ہے جس کو تم نے میرے لیے وکیل تسلیم کیا تھا‘‘! پھر اس بنائے گئے سوراخ کو درست کیا ہے اور اس لکڑی کو لے کر سمندر کے قریب آیا اور کہنے لگا: ”اے اللہ تو جانتا ہے میں نےفلاں شخص سے ایک ہزار اشرفیاں قرض لی تھیں اور اس نے مجھ سے گواہ مانگا تھا میں نے کہا تھا اللہ ہی گواہ کے طور پر کافی ہے اور وہ اس پر راضی ہو گیا تھا، اس نے مجھ سے ضمانت بھی مانگی تھی، چنانچہ میں نے کہا کہ اللہ ہی ضمانت کے لیے کافی ہے چنانچہ وہ اس پر راضی ہو گیا، میں نے بہت کوشش کی کہ کوئی جہاز ملے اور میں میرے ذمہ جو ہے وہ ادا کردوں، لیکن مجھے جہاز نہ مل سکا، پس میں یہ امانت تیرے سپرد کرتا ہوں، اس نے یہ کہہ کر اس لکڑی کو سمندر میں پھینک دی یہاں تک کہ وہ اس میں ڈوب گئی، پھر وہ لوٹ کر چلا آیا، لیکن وہ ہمیشہ ایک ہزار دینار کے ساتھ جہاز کو تلاش کرتا رہا ، اس گمان کے ساتھ کہ اس نے پہلے جو کیا وہ اس کے لیے کافی نہیں ہے۔یہاں قرض دینے والا اپنے وعدہ کیے ہوئے وقت پر نکلا تاکہ دیکھا شاید کوئی جہاز اس کا وہ مال لے کر آئے جسے اس نے فلاں شخص کو قرض دیا تھا کہ شاید ہو سکتا ہے کہ اس شخص نے کسی سے وہ مال دے کر بھیجا ہو یا وہ خود لے کر آیا ہو لیکن اسے کوئی جہاز نظر نہیں آیا، چنانچہ اتنے میں اسے ایک لکڑی دکھائی دی جس میں مال رکھا ہو تھا، اس نے اسے اپنے لیے لے لیا تاکہ اسے ایندھن کے طور پر استعمال کرے جب کہ اسے معلوم نہیں تھا کہ اس میں مال چھپا ہے، جب اس نے آرے سے اس کو چیرا تو اسے اشرفیاں اور قرضدار کا لکھا ہوا خط دستیاب ہوا۔ پھر وہ شخص جس نے قرض لیا تھا وہ مزید ایک ہزار اشرفیاں لے کر آیا اور قرض دینے والے سے کہنے لگا کہ اللہ کی قسم! جہاز کو تلاش کرنے کی میں نے بہت کوشش کی تاکہ آپ کی رقم واپس لا سکوں لیکن جس جہاز میں آیا اس سے پہلے کوئی جہاز نہ ملا، تب اس قرض دینے والے نے کہا تو نے میرے پاس کچھ بھیجا تھا؟، اس نے کہا کہ میں آپ کو بتا رہا ہوں کہ جس جہاز پر میں آیا ہوں اس سے قبل مجھے کوئی جہاز نہ ملا، قرض دینے والے نے کہا اللہ نے تمہاری جانب سے وہ ایک ہزار دینار ادا کر دیے ہیں جس کو تم نے لکڑی میں رکھ کر بھیجا تھا، چنانچہ وہ شخص سرخ روئی کے ساتھ دوسرے ایک ہزار دینار جسے وہ ساتھ لایا تھا لوٹ آیا۔

التصنيفات

ضمانت و کفالت, اخلاقِ حمیدہ/ اچھے اخلاق