ایک آدمی کے لیے نہایت بری بات ہے کہ وہ کہے کہ میں اتنی اور اتنی آیتیں بھول چکا ہوں۔ اصل بات یہ ہے کہ اسے بھلا دیا گیا ہے۔ تم پابندی کے ساتھ قرآن کى تلاوت اور اس کا پیہم…

ایک آدمی کے لیے نہایت بری بات ہے کہ وہ کہے کہ میں اتنی اور اتنی آیتیں بھول چکا ہوں۔ اصل بات یہ ہے کہ اسے بھلا دیا گیا ہے۔ تم پابندی کے ساتھ قرآن کى تلاوت اور اس کا پیہم مذاکرہ کیا کرو، کیوں کہ وہ لوگوں کے دلوں سے اتر جانے کے معاملے میں اونٹوں کی رفتار سے بھی کہیں تیز ہے۔

عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : "ایک آدمی کے لیے یہ بری بات ہے کہ وہ کہے کہ میں اتنی اور اتنی آیتیں بھول چکا ہوں۔ اصل بات یہ ہے کہ اسے بھلا دیا گیا ہے۔ تم پابندی کے ساتھ قرآن کى تلاوت اور اس کا پیہم مذاکرہ کیا کرو, کیوں کہ وہ لوگوں کے دلوں سے اتر جانے کے معاملے میں اونٹوں کی رفتار سے بھی کہیں تیز ہے"۔

[صحیح] [متفق علیہ]

الشرح

اس حدیث میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس آدمی کی مذمت کی ہے، جو کہے کہ میں یہ اور وہ آیتیں بھول چکا ہوں، کیوں کہ یہ قرآن کو یاد رکھنے کے معاملے میں سستی روا رکھنے اور غفلت سے کام لینے کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ قرآن کی دیکھ بھال اور اسے یاد رکھنے کے معاملے میں سستی کی وجہ سے اسے قرآن کو بھولنے کی سزا دی گئي ہے۔ پھر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے تلاوت قرآن کی پابندی، اسے یاد رکھنے اور اس کا دور کرتے رہنے کا حکم دیا ہے، کیوں کہ وہ سینوں سے نکل بھاگنے کے معاملے میں اونٹ سے بھی کہیں آگے ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے بطور خاص اونٹ کا ذکر اس لیے کیا، کیوں کہ وہ پالتو جانوروں کے ما بین بدکنے میں سب سے آگے ہے اور بدک جائے تو اسے پکڑنا بڑا دشوار ہوتا ہے۔

التصنيفات

قرآن کریم میں مشغول رہنے کی فضیلت