امیر المؤ منین! اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ سے فرمایا: {خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ}۔ اور یہ جاہلوں میں سے ہیں۔

امیر المؤ منین! اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ سے فرمایا: {خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ}۔ اور یہ جاہلوں میں سے ہیں۔

عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ عیینہ بن حصن رضی اللہ عنہ آئے اور انھوں نے اپنے بھتیجے حر بن قیس رضی اللہ عنہ کے یہاں قیام کیا۔ حر بن قیس رضی اللہ عنہ ان لوگوں میں سے تھے، جنھیں عمر رضی اللہ عنہ اپنے قریب رکھتے تھے۔ علما عمر رضی اللہ عنہ کے شریکِ مجلس و مشورہ رہتے تھے؛ خواہ وہ بوڑھے ہوں یا جوان۔ عیینہ رضی اللہ عنہ نے اپنے بھتیجے سے کہا: اے بھتیجے! تمھیں امیر المؤمنین کے یہاں رسوخ حاصل ہے۔ چنانچہ تم مجھے ان سے ملنے کی اجازت لے دو۔ حر بن قیس رضی اللہ عنہ نے اجازت چاہی، تو عمر رضی اللہ عنہ نے اجازت دے دی۔ جب عیینہ رضی اللہ عنہ آئے، تو کہنے لگے: اے ابن خطاب! واللہ! تم ہمیں بہت زیادہ نہیں دیتے اور نہ ہمارے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کرتے ہو"۔ اس پر عمر رضی اللہ عنہ غصہ میں آ گئے، یہاں تک کہ انھیں مارنے کا ارادہ کر لیا۔ اتنے میں حر بن قیس رضی اللہ عنہ نے آپ سے کہا:"امیر المؤ منین! اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ سے فرمایا کہ: {خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ} (الأعراف:198) ”آپ درگزر کو اختیار کریں، نیک کام کی تعلیم دیں اور جاہلوں سے ایک کناره ہو جائیں“۔ اور یہ جاہلوں میں سے ہیں۔ اللہ کی قسم! جب انھوں نے یہ آیت تلاوت کی، تو عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے بالکل بھی تجاوز نہ کیا۔ در حقیقت آپ رضی اللہ عنہ تھے ہی ایسے کہ آپ اللہ کی کتاب (کے احکامات) پر ٹھہر جاتے۔

[صحیح] [اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]

الشرح

جلیل القدر صحابی عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما امیر المؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو پیش آنے والے ایک واقعہ کے بارے میں ہمیں بتا رہے ہیں کہ ان کے پاس عیینہ بن حصن رضی اللہ عنہ آئے، جو اپنی قوم کے سرکردہ لوگوں میں سے تھے۔ انھوں نے اپنی بے سروپا گفتگو کا آغاز درشتگی اور مذمت بھرے انداز میں کیا اور پھر ڈانٹتے ہوئے کہنے لگے: "تم ہمیں بہت زیادہ نہیں دیتے اور نہ ہمارے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کرتے ہو۔ اس پر عمر رضی اللہ عنہ شدید غصے میں آ گئے اور قریب تھا کہ وہ ان کی پٹائی كر دیتے، لیکن بعض علما جن میں ایک عیینہ رضی اللہ عنہ کے بھتیجے حر بن قیس رضی اللہ عنہ بھی تھے، آگے بڑھے اور خلیفۂ راشد رضی اللہ عنہ سے مخاطب ہو کر کہنے لگے: اے امیر المؤمنین! اللہ تعالی نے اپنے نبی ﷺ سے فرمایا: {خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ} (الأعراف: 199) ”آپ درگزر کو اختیار کریں، نیک کام کی تعلیم دیں اور جاہلوں سے ایک کناره ہو جائیں“۔ اور یہ جاہل لوگوں میں سے ہے۔ اس آیت پر عمر رضی اللہ عنہ ٹھہر گئے اور انھوں نے اپنا غصہ دبا لیا اور اس سے تجاوز نہ کیا؛ کیوں کہ آپ رضی اللہ عنہ اللہ کی کتاب (کے احکامات) پر رک جانے والے تھے۔ چنانچہ آپ کے سامنے تلاوت کی جانے والی اس آیت کی وجہ سے آپ رضی اللہ عنہ نے اس شخص کو نہ مارا۔ اللہ کی کتاب کے معاملے میں صحابۂ کرام کا طرز عمل یہی تھا کہ وہ اس سے تجاوز نہ کرتے۔ جب ان سے یہ کہہ دیا جاتا کہ یہ اللہ کا فرمان ہے، تو وہ رک جاتے؛ چاہے کچھ بھی ہو۔

التصنيفات

صحابہ رضی اللہ عہنہم کی فضیلت, امام کے واجبات, اسلام میں شورائی نظام