اللہ کی قسم! ہم کسی ایسے شخص کو اس کام کی ذمے داری نہیں دیتے، جو اس کو طلب کرے اور نہ ہی ایسے شخص کو جو اس کا خواہش مند ہو۔

اللہ کی قسم! ہم کسی ایسے شخص کو اس کام کی ذمے داری نہیں دیتے، جو اس کو طلب کرے اور نہ ہی ایسے شخص کو جو اس کا خواہش مند ہو۔

ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں اور میرے چچا کے بیٹوں میں سے دو بیٹے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، ان دونوں میں سے ایک نے کہا: اے اللہ کے رسولﷺ! اللہ تعالیٰ نے آپ کی تولیت میں جو دیا، اس کے کسی حصے پر ہمیں امیر بنا دیجیے۔ دوسرے نے بھی یہی کہا، تو آپ نے فرمایا: ”اللہ کی قسم! ہم کسی ایسے شخص کو اس کام کی ذمے داری نہیں دیتے، جو اس کو طلب کرے اورنہ ہی ایسے شخص کو، جو اس کا خواہش مند ہو“۔

[صحیح] [متفق علیہ]

الشرح

اس حدیث میں امارت طلب کرنے والے یا اس کی حرص رکھنے والے کو امارت سونپنے سے منع کیا گيا ہے۔ چنانچہ جب نبی کریم ﷺ سے دو آدمیوں نے یہ مطالبہ کیا کہ آپ ﷺ کی تولیت میں اللہ تعالیٰ نے جو معاملات دیے ہیں ان میں سے کسی پر انھیں امیر مقرر فرما دیں، تو آپﷺ نے فرمایا: ”إِنَّا وَاللهِ لا نُوَلِّي هَذَا الأَمْرَ أَحَدًا سَأَلَهُ، أو أَحَدًا حَرَصَ عَلَيْهِ“ یعنی اللہ کی قسم! ہم کسی ایسے شخص کو اس کام کی ذمے داری نہیں دیتے، جو اسے طلب کرے،اور نہ ایسے شخص کو، جو اس کا خواہش مند ہو۔ کیوں کہ جو شخص کوئی عہدہ طلب کرتا ہے یا اس کی حرص رکھتا ہے، بسا اوقات اس کی غرض صاحب اختیار بننے کی ہوتی ہے۔ چوں کہ اس تہمت سے متہم ہونے کا ڈر تھا، اس لیے نبی کریمﷺ نے منع فرمادیا کہ ایسے شخص کو کوئی عہدہ دیا جائے جو امارت کی طلب رکھتا ہو۔ فرمایا: اللہ کی قسم! ہم کسی ایسے شخص کو اس کام کی ذمے داری نہیں دیتے، جو اسے طلب کرے اور نہ ایسے شخص کو، جو اس کا خواہش مند ہو۔ اس حدیث کے موضوع کی تاکید عبدالرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ہوتی ہے کہ نبی نے فرمایا: امارت کے طلب گار نہ بنو؛ کیوںکہ بغیر طلب کیے اگر یہ چیز تمھیں ملتی ہے، تواس پر تمھاری مدد کی جاتی ہے اور اگرمانگنے پر دی جاتی ہے، تو تمھیں اس کے سپرد کر دیا جاتا ہے۔ لہذا حاکم کے لیے یہ مناسب نہیں ہے کہ جب اس سے کوئی شخص کسی ملک یا کسی بستیوں والے علاقے وغیرہ کی امارت طلب کرے، تو اسے اس کا والی بنادے۔ اگرچہ طلب کرنے والا شخص اس کی اہلیت رکھتا ہو۔ نیز اگر کوئی شخص عہدۂ قضا کا طلب گار ہواور عدلیہ کے حاکم مثلا وزیر انصاف سے کہے کہ مجھے فلاں جگہ کا جج بنادیجیے تو وہ اسے جج نہ بنائے۔ البتہ اگر کوئی شخص ایک شہر سے دوسرے شہر میں تبادلہ وغیرہ کا خواہاں ہو، تو وہ اس حدیث میں داخل نہیں ہوگا، کیوں کہ اسے پہلے ہی سے عہدہ ملا ہوا ہے۔ وہ فقط دوسری جگہ جانا چاہتا ہے۔ البتہ اگر یہ پتہ چلے کہ وہ اس شہر والوں پر کنٹرول کرنا چاہتا ہے، تو ہم اسے روکیں گے، کیونکہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ اگر کوئی کہے کہ تم یوسف علیہ السلام کے اس قول کے بارے میں کیا کہوگے، جو انھوں نے عزیز مصر کو خطاب کرتے ہو‎ئے کہا تھا: مجھے زمین کے خزانوں کا نگراں مقرر کر دیجیے، میں حفاظت کرنے والا اور باخبر ہوں تو ہم اسے دوجوابوں میں سے کوئی ایک جواب دیں گے: پہلا جواب یہ ہے کہ پچھلی شریعت کا ٹکراؤ اگر ہماری شریعت سے ہو، تواعتبار ہماری شریعت کا ہوگا۔ اہل اصول کا مشہور قاعدہ ہے: پچھلی شریعتیں ہمارے لیے اس وقت تک قابل عمل ہیں، جب تک هماری شریعت میں ان کے خلاف نہ آیا ہو" چوں کہ ہماری شریعت میں ان کے خلاف وارد ہے کہ کسی ایسے شخص کو عہدہ نہیں دیا جائے گا، بو اس کا طالب ہو۔دوسرا جواب یہ ہے کہ اس سے کہا جائے گا کہ یوسف علیہ السلام نے جب مال کا ضیاع، اس کی حفاظت میں کوتاہی اور بندر بانٹ کو محسوس کیا تو آپ نے ملک کو کرپشن سے نجات دلانے کا ارادہ کیا۔ اس طرح کے کام کا مقصد غلط تدبیر اور غلط طریقۂ کارسے چھٹکارا دلانا ہوتا ہے۔ اور اس میں کوئی حرج نہیں ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر جب کوئی شخص کسی علاقے میں کوئی حاکم دیکھے، جس نے امور سلطنت کو تباہ اور مخلوق کو برباد کر رکھا ہو اوراسے نظام سلطنت کو درست کرنے کے لیے کوئی دوسرا آدمی نظر نہ آئے، چنانچہ اس کے مفاسد کو دور کرنےکے لیے سربراہ اعلی سے خود اپنی تقرری کی گزارش کرے، تو قاعدے کی رو سے اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ عثمان بن ابو العاص کی حدیث، جس میں ہے کہ انھوں نے نبی سے کہا تھا: مجھے اپنی قوم کا نماز میں امام بنادیجیے، تو آپ نے فرمایا: تو ان کا امام ہے، بعض علما کے مطابق خیر کے کاموں میں امامت کی طلب پردلالت کرتی ہے اور یہ ان رحمن کے بندوں کی دعاؤں میں بھی آیا ہے، جنھیں خود اللہ نے اس وصف سے متصف کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں: (ہمیں پرھیزگاروں کا امام بنادیجیے) ناپسندیدہ ریاست کی طلب کے جواز پر نہیں؛ کیوں کہ یہ دنیا کی ریاست سے متعلق ہے، جسے طلب کرنے والے کی نہ تو مدد کی جاتی ہے اور نہ وہ ریاست پانے کا حق دار ہوتا ہے۔

التصنيفات

امام کے واجبات