إعدادات العرض
نبی ﷺ نے (ایک دن) عشا کی نماز میں تاخیر فرما دی۔ اس پر عمر رضی اللہ عنہ نکلے اور کہنے لگے: یا رسول اللہ! نماز پڑھانے کے لیے تشریف لائیے۔ عورتیں اور بچے سو چکے ہیں۔ چنانچہ…
نبی ﷺ نے (ایک دن) عشا کی نماز میں تاخیر فرما دی۔ اس پر عمر رضی اللہ عنہ نکلے اور کہنے لگے: یا رسول اللہ! نماز پڑھانے کے لیے تشریف لائیے۔ عورتیں اور بچے سو چکے ہیں۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ باہر تشریف لائے، اس حال میں کہ آپ ﷺ کے سر مبارک سے پانی ٹپک رہا تھا اور آپ ﷺ فرما رہے تھے: اگر مجھے اپنی امت (یا آپ ﷺ نے فرمایا) اگر مجھے لوگوں کے دشواری میں مبتلا ہونے کا اندیشہ نہ ہوتا، تو انھیں حکم دیتا کہ وہ اس گھڑی میں یہ نماز پڑھا کریں۔
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے (ایک دن) عشا کی نماز میں تاخیر فرما دی۔ اس پر عمر رضی اللہ عنہ نکلے اور کہنے لگے: یا رسول اللہ! نماز پڑھانے کے لیے تشریف لائیے۔ عورتیں اور بچے سو چکے ہیں۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ باہر تشریف لائے، اس حال میں کہ آپ ﷺ کے سر مبارک سے پانی ٹپک رہا تھا اور آپ ﷺ فرما رہے تھے: اگر مجھے اپنی امت (یا آپ ﷺ نے فرمایا) اگر مجھے لوگوں کے دشواری میں مبتلا ہونے کا اندیشہ نہ ہوتا، تو انھیں حکم دیتا کہ وہ اس گھڑی میں یہ نماز پڑھا کریں۔
[صحیح] [متفق علیہ]
الترجمة
العربية বাংলা Bosanski English Español فارسی Français Bahasa Indonesia Русский Tagalog Türkçe 中文 हिन्दी ئۇيغۇرچە Hausa Português Kurdî Kiswahili සිංහලالشرح
نبی ﷺ نے (ایک دن) عشا کی نماز میں دیر کر دی، یہاں تک کہ رات کا بہت سارا حصہ گزر گیا اور عورتیں، بچے اور وہ لوگ سو گئے، جو زیادہ دیر تک انتظار نہیں کر سکتے تھے۔ اس پر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے آکر کہا: (یا رسول اللہ!) نماز پڑھانے کے لیے تشریف لائیے، عورتیں اور بچے سو گئے ہیں۔ اس پر نبی ﷺ اپنے گھر سے نکل کر مسجد میں تشریف لائے، اس حال میں کہ غسل کی وجہ سے آپ ﷺ کے سر سے پانی ٹپک رہا تھا۔ آپ ﷺ نے وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر نماز کا انتظار کرنے والوں کی مشقت کا اندیشہ نہ ہو، توعشا کی نماز میں تاخیر افضل ہے۔ (آپ ﷺ نے فرمایا): اگر مجھے اپنی امت کے دشواری میں مبتلا ہونے کا اندیشہ نہ ہوتا، تو میں انھیں حکم دیتا کہ وہ اسی وقت دیر کر کے یہ نماز پڑھا کریں۔