میں آپ ﷺ کے ساتھ رہا، آپ ﷺ سفر میں دو سے زیادہ رکعتیں نہیں پڑھتے تھے، اسی طرح حضرت ابوبکر، عُمر اور عثمان بھی دو سے زیادہ رکعتیں نہیں پڑھتے تھے۔

میں آپ ﷺ کے ساتھ رہا، آپ ﷺ سفر میں دو سے زیادہ رکعتیں نہیں پڑھتے تھے، اسی طرح حضرت ابوبکر، عُمر اور عثمان بھی دو سے زیادہ رکعتیں نہیں پڑھتے تھے۔

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں آپ ﷺ کے ساتھ رہا، آپ ﷺ سفر میں دو سے زیادہ رکعتیں نہیں پڑھتے تھے، اسی طرح حضرت ابوبکر، عُمر اور عثمان بھی دو سے زیادہ رکعتیں نہیں پڑھتے تھے۔

[صحیح] [متفق علیہ]

الشرح

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ذکر کرتے ہیں کہ وہ آپ ﷺ کے اسفار میں آپ کے ساتھ تھے، اسی طرح ابوبکر، عُمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے بھی ساتھ تھے، ان میں سے ہر ایک چار رکعت والی نماز کو مختصر کرکے دو رکعات پڑھتا تھا، اس سے زیادہ نہیں پڑھتا تھا یعنی ان میں سے کوئی بھی فرض نماز پوری نہیں پڑھتا تھا اور نہ ہی یہ سنن مؤکدہ پڑھتے تھے۔ حدیث میں ابوبکر، عُمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کا ذکر اس لیے کیا کہ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ حکم منسوخ نہیں۔ بلکہ آپ ﷺ کی وفات کے بعد بھی ثابت ہے اور نہ ہی اس کا کوئی معارض موجود ہے جس کو ترجیح حاصل ہو۔ سفر میں پوری نماز پڑھنی جائز ہے، تاہم قصر کرنا افضل ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا قول ہے ﴿لَيْسَ عَليكُمْ جُنَاحٌ أن تَقصُرُوا مِنَ الصَّلاَةِ﴾ ” تم پر نمازوں کے قصر کرنے میں کوئی گناه نہیں“۔ جناح (گناہ) کی نفی کا فائدہ یہ ہے کہ اس میں رخصت ہے عزیمت نہیں۔ دوسرے اس لیے کہ اصل اتمام ہے۔ اور قصر اس چیز میں ہوتا ہے جو اس سے زیادہ طویل ہو۔ اور مسافر کے لیے بہتر یہ ہے کہ وہ آپ ﷺ کی اتباع کرتے ہوئے، اور اس لیے کہ اللہ تعالی اس کی دی ہوئی رخصتوں پر عمل کرنے کو پسند فرماتا ہے اور جو قصر کو واجب کہتے ہیں ان کے اختلاف سے بچنے کے لیے قصر نماز نہ چھوڑے۔ تیسرے اس لیے بھی قصر نہ چھوڑے کہ اکثر علماء کے ہاں یہی افضل ہے۔

التصنيفات

شرعی عذر والوں کی نماز