منافق کو سید (یعنی آقا) نہ کہو کیوں کہ اگر وہ (حقیقت میں) سید ہے بھی تو (تب بھی ایسا کہہ کر) تم اپنے رب کو ناراض کرو گے۔

منافق کو سید (یعنی آقا) نہ کہو کیوں کہ اگر وہ (حقیقت میں) سید ہے بھی تو (تب بھی ایسا کہہ کر) تم اپنے رب کو ناراض کرو گے۔

بریدہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: ”منافق کو سید (یعنی آقا) نہ کہو کیوں کہ اگر وہ (حقیقت میں) سید ہے بھی تو (تب بھی ایسا کہہ کر) تم اپنے رب کو ناراض کرو گے“۔

[صحیح] [اسے امام نسائی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]

الشرح

حدیث کا مفہوم: منافق اگر کسی اعتبار سے اپنی قوم کا سردار اور سرکردہ شخص ہو اور آپ اسے سید یعنی آقا کہہ کر پکاریں تو ایسا کرنے سے آپ اللہ تعالی کی ناراضگی مول لیں گے کیوں کہ ایسا کہنے میں اس کی تعظیم ہوتی ہے حالاں کہ وہ ان افراد میں سے ہے جو تعظیم کے مستحق نہیں ہوتے۔ اور اگر وہ اپنی قوم کا سردار یا سرکردہ شخص نہ ہوا تو ایسا کہنا جھوٹ اور منافقت کے زمرے میں آئے گا۔ چنانچہ دونوں ہی صورتوں میں منافق کے لیے سید یعنی آقا کا لفظ استعمال کرنے سے منع کیا گیا ہے اور یہی حال کافر، فاسق اور بدعتی شخص کا ہے۔ ایسا شخص بالکل بھی اس بات کا مستحق نہیں کہ اس کے لیے سید (سردار) کا لفظ بولا جائے۔ یہ ممانعت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ان کے بعد آنے والے تمام لوگوں کے لیے عام ہے، عہد صحابہ میں منافقوں کی دو قسمیں تھی: ایک وہ منافق جنہیں صرف اللہ کے رسول ﷺ اور آپ کے رازدان حذیفہ رضی اللہ عنہ جانتے تھے، دوسری قسم ان منافقوں کی تھی کہ جن کے نفاق کے بارے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جانتے تھے جیسے عبد اللہ بن اُبی۔ اسی دوسری قسم پر یہ حدیث منطبق ہوتی ہے۔

التصنيفات

گفتگو میں ممنوعہ امور اور زبان کی تباہ کاریاں