میں نے اپنے بندے کو جو مال دے دیا ہے وہ اس کے لیے حلال ہے اور میں نے اپنے سب بندوں کو (حق کے لیے) یکسو پیدا کیا ہے لیکن شیاطین میرے ان بندوں کے پاس آکر انہیں ان کے دین سے…

میں نے اپنے بندے کو جو مال دے دیا ہے وہ اس کے لیے حلال ہے اور میں نے اپنے سب بندوں کو (حق کے لیے) یکسو پیدا کیا ہے لیکن شیاطین میرے ان بندوں کے پاس آکر انہیں ان کے دین سے بہکانے لگے۔

عیاض بن حمار مجاشعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دن اپنے خطبہ میں ارشاد فرمایا: سنو میرے رب نے مجھے یہ حکم دیا ہے کہ میں تم لوگوں کو وہ باتیں سکھا دوں کہ جن باتوں سے تم لا علم ہو، میرے رب نے آج کے دن مجھے وہ باتیں سکھا دیں ہیں، (اللہ تعالی نے فرمایا) میں نے اپنے بندے کو جو مال دے دیا ہے وہ اس کے لیے حلال ہے اور میں نے اپنے سب بندوں کو (حق کے لیے) یکسو پیدا کیا ہے لیکن شیاطین میرے ان بندوں کے پاس آکر انہیں ان کے دین سے بہکانے لگے اور میں نے اپنے بندوں کے لیے جن چیزوں کو حلال کیا ہے وہ ان کے لیے حرام قرار دیے ہیں اور وہ ان کو ایسی چیزوں کو میرے ساتھ شریک کرنے کا حکم دیتے ہیں کہ جس کی کوئی دلیل میں نے نازل نہیں کی اور بے شک اللہ تعالیٰ نے زمین والوں کی طرف نظر فرمائی تو اہل کتاب کے (کچھ ) بچے کھچے لوگوں کے سوا باقی عرب اور عجم سب پر سخت ناراض ہوا اور (مجھ سے) اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں نے تمہیں اس لیے بھیجا ہے تاکہ میں تم کو آزماؤں اور تمہارے ذریعہ ان کو بھی آزماؤں اور میں نے آپ پر ایک ایسی کتاب نازل کی ہے کہ جسے پانی نہیں دھو (مٹا) سکے گا اور تم اس کتاب کو سونے اور بیداری کی حالت میں بھی پڑھو گے اور بلاشبہ اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں قریش کو جلا ڈالوں تو میں نے عرض کیا: اے پروردگار! وہ میرے سر کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے روٹی کی طرح کردیں گے۔ تو اللہ نے فرمایا: آپ انہیں باہر نکالیں جس طرح انہوں نے آپ کو باہر نکالا اور ان سے لڑائی کریں ہم آپ کو لڑوائیں گے اور (اللہ کی راہ میں) خرچ کریں آپ پر خرچ کیا جائے گا اور آپ لشکر بھیجیں ہم اس جیسے پانچ لشکر بھیجیں گے اور جو لوگ آپ کے فرماں بردار ہیں ان کے ذریعے نافرمانوں کے خلاف جنگ کریں۔ آپ ﷺ نے فرمایا جنتی لوگ تین قسم کے ہیں: ایسا سلطنت والا جو عادل ہے صدقہ کرنے والا ہے اسے اچھائی کی توفیق دی گئی ہے۔ اور (دوسرا) ایسا مہربان شخص جو ہر قرابت دار اور ہر مسلمان کے لیے نرم دل ہے اور (تیسرا) وہ آدمی کہ جو پاکدامن پاکیزہ اخلاق والا ہو اور عیال دار بھی ہو لیکن کسی کے سامنے اپنا ہاتھ نہ پھیلاتا ہو۔ نیز آپ ﷺ نے فرمایا دوزخی پانچ طرح کے ہیں: وہ کمزور آدمی کہ جس کے پاس عقل نہ ہو اور دوسروں کا تابع (غلام) ہو اہل و مال کا طلبگار نہ ہو۔ (دوسرا) خیانت کرنے والا آدمی کہ جس کی حرص چھپی نہیں رہ سکتی اگرچہ اسے تھوڑی سی چیز ملے اور وہ اس میں بھی خیانت کرے۔ (تیسرا) وہ آدمی جو صبح شام تم کو تمہارے گھر اور مال کے بارے میں دھوکہ دیتا ہو۔ اور آپ ﷺ نے (چوتھا) بخیل یا جھوٹے اور (پانچواں) بدخو اور بیہودہ گالیاں بکنے والے آدمی کا بھی ذکر فرمایا۔

[صحیح] [اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]

الشرح

اللہ کے رسول ﷺ نے ایک دن اپنے صحابہ کے درمیان خطبہ دیا اور انہیں بتلایا کہ اللہ تعالی نے انہیں اس بات کاحکم دیا ہے کہ آپ ﷺ انہیں وہ چیز سکھلائیں جو ان کو معلوم نہیں ہیں جسے انہیں رب نے اس دن سکھلائے ہیں۔ چنانچہ ان باتوں میں سے جو اللہ تعالی نے نبی ﷺ کو سکھلائی ہیں۔ اللہ تعالی کا یہ قول کہ ”میں نے اپنے بندے کو جو مال دے دیا ہے وہ اس کے لیے حلال ہے“ يعنی اللہ تعالی نے فرمایا: میں جو بھی مال اپنے بندوں میں سے کسی کو دوں تو وہ اس کے لیے حلال ہے اور جنہوں نے کچھ جانوروں کو اپنے اوپر حرام کرلیا تھا اس سے اسی کا انکار مراد ہے اور یہ کہ اُن کے (ان جانوروں کو) حرام کر لینے سے وہ حرام نہیں ہوجاتے۔ جس مال کا بھی بندہ مالک ہے وہ اس کے لیے حلال ہے مگر یہ کہ اس سے کوئی حق متعلق ہو جائے یا کوئی خاص دلیل وارد ہو جو اس کو اس عموم سے خارج کر دے۔ اس کے بعد اللہ تعالی نے فرمایا: ”اور میں نے اپنے سب بندوں کو (حق کے لیے) یکسو پیدا کیا ہے“ یعنی میں نے سب بندوں کو مسلمان بنایا اور بقول بعض: گناہوں سے پاک صاف بنایا اور بقول دیگر صراط مستقیم پر گامزن اور قبول ہدایت کی طرف متوجہ ہونے والا بنایا۔جب کہ بعض لوگوں نے کہا کہ اس سے مراد وہ عہد وپیمان ہے جو ابتدائے آفرینش کے وقت بنی نوعِ آدم سے لیا گیا تھا اور اللہ تعالی نے پوچھا تھا:کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں تو انہوں نے کہا تھا کیوں نہیں! (یعنی بالکل)۔ اللہ تعالی کا قول: ”لیکن شیاطین میرے ان بندوں کے پاس آکر انہیں ان کے دین سے بہکانے لگے اور میں نے اپنے بندوں کے لیے جن چیزوں کو حلال کیا تھا وہ انہیں اُن کے لیے حرام قرار دینے لگے نیز وہ ان کو ایسی چیزوں کو میرے ساتھ شریک کرنے کا حکم دیتے ہیں کہ جس کی کوئی دلیل میں نے نازل نہیں کی“۔ یعنی ان کے پاس شیاطین آئے اور انہیں بہلایا پھسلایا اور جس دین پر یہ تھے اس سے ہٹا کر انہیں باطل کی طرف مائل کر دیا، اور ان پر ان چیزوں کو حرام کر دیا جسے اللہ تعالی نے ان کے لیے حلال کیا تھا اور انہیں اللہ کے ساتھ شرک کرنے کا حکم دیا ان چیزوں کی عبادت کر کے جن کی عبادت کرنے کا نہ تو اللہ نے حکم دیا اور نہ ہی ان کی عبادت کے استحقاق کی کوئی دلیل قائم کی۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان: ”بے شک اللہ تعالیٰ نے زمین والوں کی طرف نظر فرمائی تو اہلِ کتاب کے (کچھ ) بچے کھچے لوگوں کے سوا باقی عرب اور عجم سب پر سخت ناراض ہوا“ یعنی اللہ تعالی نے رسول ﷺ کی بعثت سے قبل زمین والوں کی طرف دیکھا تو انہیں شرک اور گمراہی پر متفق پایا۔ چنانچہ اللہ نے ان سے سخت نفرت کی سوائے ان چند لوگوں کے جو اہلِ کتاب میں سے باقی تھے اور یہ وہ لوگ تھے جو بنا رد وبدل کیے اپنے سچے دین پر باقی تھے، جب کہ اہلِ کتاب کی اکثریت تحریف اور رد وبدل کا شکار ہو گئے تھے۔ اور اللہ سبحانہ وتعالی کا یہ فرمان کہ: "میں نے تمہیں اس لیے بھیجا ہے تاکہ میں تم کو آزماؤں اور تمہارے ذریعہ ان کو بھی آزماؤں“ یعنی میں نے تجھ کو لوگوں کی طرف اس لیے بھیجا تاکہ تمہیں آزماؤں کہ تبلیغِ رسالت، اللہ کے راستے میں کما حقہ جہاد کرنا اور اللہ کے راستے میں صبر اور اس کے علاوہ جس ذمہ داری کا میں نے تمہیں حکم دیا ہے اس کی ادایئگی کا ظہور آپ سے بخوبی ہوا ہے اور آپ کے ذریعہ ان لوگوں کو آزماؤں جن کے پاس تجھ کو بھیجا، تو ان میں سے بعض وہ ہیں جو اپنے ایمان کو ظاہر کرتے ہیں اور اپنی فرماں برداری میں مخلص ہوتے ہیں اور کچھ پیچھے رہ جانے والے اور کفر و دشمنی کا اظہار کرنے والے ہیں اور ان میں سے بعض منافق ہیں۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالی اسے آزمائے تاکہ حقیقت ظاہر ہو جائے کیونکہ اللہ تعالی بندوں کو ان سے واقع ہونے والی چیزوں کی بنیاد پر سزا دے گا نہ کہ اس گناہ کے واقع ہونے سے پہلے صرف اللہ تعالی کے علم رکھنے کی بنیاد پر ورنہ تو اللہ تعالی تمام چیزوں کے متعلق ان کے واقع ہونے سے قبل علم رکھتا ہے۔ ”اور میں نے آپ پر ایک ایسی کتاب نازل کی ہے کہ جسے پانی نہیں دھو (مٹا) سکے گا“ اس کا معنی یہ ہے کہ میں نے تم پر قرآن مجید نازل کیا اور وہ سینوں میں محفوظ ہے، وہ ختم نہیں ہوگا، بلکہ یہ سدا باقی رہے گا۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے: ”اور تم اس کتاب کو سونے اور بیداری کی حالت میں بھی پڑھو گے“ اس کا معنی یہ ہے کہ یہ نیند اور بیداری دونوں حالت میں آپ کے لیے محفوظ ہوگا اور بعض لوگوں نے کہا کہ تم اسے آسانی اور سہولت کے ساتھ پڑھتے رہوگے۔ اور نبی ﷺ کا فرمان: ”اور بلاشبہ اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں قریش کو جلا ڈالوں“ یعنی اللہ تعالی نے مجھے اس بات کاحکم دیا ہے کہ میں کفار قریش کو ہلاک اور انہیں قتل کروں۔ ”تو میں نے عرض کیا: اے پروردگار! وہ میرے سر کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے روٹی کی طرح کردیں گے“ یعنی وہ میرا سر توڑ ڈالیں گے اور اسے زخمی کر دیں گے جیسے روٹی کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جا تا ہے۔ ”آپ انھیں باہر نکال دیں جس طرح انھوں نے آپ کو باہر نکالا“ یعنی اللہ تعالی نے اپنے نبی ﷺ سے کہا، کفار قریش کو اسی طرح نکال دو جس طرح انہوں نے تمہیں نکالا تھا تاکہ (ان کے اعمال کا) بدلہ پورا ہوجائے، اگرچہ دونوں نکالنے میں واضح فرق ہے، کیونکہ ان کا نبی ﷺ کو نکالنا ناحق تھا جب کہ نبی ﷺ کا انہیں نکالنا حق تھا۔ ”اور ان سے لڑائی کریں ہم آپ کو لڑوائیں گے“ یعنی: ان سے جہاد کریں ہم آپ کی نصرت وحمایت کریں گے۔ ”اور خرچ کریں آپ پر خرچ کیا جائے گا“ یعنی اپنی استطاعت کے بقدر اللہ کے راستے میں خرچ کریں ہم دنیا و آخرت میں آپ کو اس کا بدلہ دیں گے۔ ”اور آپ لشکر بھیجیں ہم اس جیسے پانچ لشکر بھیجیں گے“ یعنی جب آپ کفار سے قتال کرنے کے لیے لشکر بھیجیں گے تو ہم ویسے فرشتوں کی پانچ فوج بھیجیں گے جو مسلمانوں کی مدد کرے گی جیسا کہ غزوہ بدر میں کیا۔ ”اور جو لوگ آپ کے فرماں بردار ہیں ان کے ذریعے نافرمانوں کے خلاف جنگ کریں“ یعنی مسلمانوں میں سے جو لوگ آپ کی اطاعت کریں ان کو لے کر ان سے لڑیں جو کافروں میں سے آپ کی نافرمانی کریں۔ ”آپ ﷺ نے فرمایا جنتی لوگ تین قسم کے ہیں: (ایک) ایسا سلطنت والا جو عادل ہے صدقہ کرنے والا ہے اسے اچھائی کی توفیق دی گئی ہے۔ (دوسرا) ایسا مہربان شخص جو ہر قرابت دار اور ہر مسلمان کے لیے نرم دل ہے۔ (تیسرا) وہ آدمی کہ جو پاک دامن، پاکیزہ اخلاق والا ہو اور بال بچوں والا بھی ہو لیکن کسی کے سامنے اپنا ہاتھ نہ پھیلاتا ہو“۔ یعنی جنتیوں کی تین قسمیں ہیں: ایک وہ شخص جو حکم، غلبہ اور برتری والا ہے، اس کے باوجود وہ لوگوں کے درمیان انصاف کرتا ہے، ان پر ظلم نہیں کرتا بلکہ ان پر احسان کرتا ہے، اس کے لیے خیر کے اسباب مہیا کر دیے گئے اور نیکی کے دروازے کھول دیے گئے۔ اور ایک وہ آدمی جو ہر چھوٹے بڑے پر مہربان ہے اور ہر اس شخص کے لیے اس کا دل نرم ہے جس سے اس کا خصوصی رشتہ ہے اور ہر مسلمان کے لیے عمومی طور پر۔ اور وہ شخص جو بال بچوں والا پاک دامن، حرام چیزوں اور لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے بچنے والا ہے وہ اپنے اور بال بچوں کے امور میں اللہ کی ذات پر بھروسہ کرنے والا ہے، پس اہل وعیال کی محبت اور ان کی روزی روٹی کا ڈر اسے اللہ پر بھروسہ چھوڑ کر مخلوق کے سامنے دامن پسارنے، حرام مال کے حصول اور اس میں مشغول ہوکر واجبی علم وعمل سے غافل ہونے پر نہیں ابھارتا۔ ”آپ ﷺ نے فرمایا دوزخی پانچ طرح کے ہیں: (ایک) وہ کمزور آدمی کہ جس کے پاس عقل نہ ہو اور دوسروں کا تابع (غلام) ہو اہل و مال کا طلبگار نہ ہو۔ (دوسرا) خیانت کرنے والا آدمی کہ جس کی حرص چھپی نہیں رہ سکتی اگرچہ اسے تھوڑی سی چیز ملے اور وہ اس میں بھی خیانت کرے۔ (تیسرا) وہ آدمی جو صبح شام تم کو تمہارے گھر اور مال کے بارے میں دھوکہ دیتا ہو۔ آپ ﷺ نے (چوتھا)بخیل یا جھوٹے اور(پانچواں) بدخو اور بیہودہ گالیاں بکنے والے آدمی کا بھی ذکر فرمایا“۔ یعنی جہنمیوں کی پانچ قسمیں ہیں ان کا پہلا ”وہ شخص جو ایسا کمزور شخص ہے جس کے پاس عقل نہ ہو“ یعنی وہ کمزور جس کے پاس ایسی عقل نہیں ہے جو اسے غیر مناسب کام کرنے سے روکے، جو تم میں سے ماتحت (غلام) ہیں نہ وہ گھر چاہتے ہیں اور نہ مال“ یعنی وہ نوکر چاکر جنہیں بیوی کی طلب نہیں ہوتی جس کی وجہ سے وہ حلال سے منہ موڑ کر حرام کے مرتکب ہو جائیں اور نہ ہی وہ جدوجہد اور پاکیزہ کمائی کے ذریعہ حلال مال کے طلب گار ہوتے ہیں۔ دوسرا: ”وہ خیانت کرنے والا آدمی کہ جس کی حرص چھپی نہیں رہ سکتی اگرچہ اسے تھوڑی سی چیز ملے اور وہ اس میں بھی خیانت کرے“ یعنی اس پر کوئی ایسی چیز پوشیدہ نہیں رہتی ہے جسے حاصل نہ کیا جاسکتا ہو بایں طور کہ اس کا حصول ممکن نہ ہو مگر وہ اسے ڈھونڈنے لگتا ہے تاکہ اس چیز کے حاصل ہو جانے پر اس میں خیانت کرے یعنی یہ خیانت کے عیب سے متصف ہونے میں مبالغہ ہے۔ اور تیسرا دھوکے باز شخص اور چوتھا جھوٹا یا بخیل آدمی اور پانچواں گالیاں بکنے والا یعنی: بدزبان اور بد خلق شخص ہے۔

التصنيفات

جنات, جنت و دوزخ کا بیان