إعدادات العرض
نبی ﷺ کے زمانہ میں ہمیں اس طرح کا کھانا بہت کم میسر آتا تھا اور اگر میسر آبھی جاتا تھا تو سوائے ہماری ہتھیلیوں، بازوؤں اور پاؤں کے کوئی رومال نہیں ہوتا تھا، نماز پڑھ…
نبی ﷺ کے زمانہ میں ہمیں اس طرح کا کھانا بہت کم میسر آتا تھا اور اگر میسر آبھی جاتا تھا تو سوائے ہماری ہتھیلیوں، بازوؤں اور پاؤں کے کوئی رومال نہیں ہوتا تھا، نماز پڑھ لیتے تھے اور (دوبارہ) وضو نہیں کرتے تھے۔
سعيد بن الحارث روايت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے جابر رضی اللہ عنہ سے ایسی چیز کے (کھانے کے بعد) جو آگ پر پکی ہو وضو کے متعلق پوچھا (کہ کیا ایسی چیز کھانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے؟) تو انہوں نے کہا کہ نہیں۔ نبی ﷺ کے زمانہ میں ہمیں اس طرح کا کھانا بہت کم میسر آتا تھا اور اگر میسر آبھی جاتا تھا تو سوائے ہماری ہتھیلیوں، بازوؤں اور پاؤں کے کوئی رومال نہیں ہوتا تھا (اور ہم انہی سے اپنے ہاتھ صاف کر کے) نماز پڑھ لیتے تھے اور (دوبارہ) وضو نہیں کرتے تھے۔
[صحیح] [اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
الترجمة
العربية বাংলা Bosanski English Español فارسی Français Bahasa Indonesia Русский Tagalog Türkçe 中文 हिन्दी ئۇيغۇرچە Hausa Kurdîالشرح
سعید بن الحارث نے جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے اس چیز کے کھانے کے بعد وضو کے بارے میں پوچھا جسے آگ پر پکایا یا بھونا گیا ہو کہ آیا اس پر پھر سے وضو کرنا واجب ہے یا نہیں؟ جابر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ اس طرح کی شے کھانے سے وضو کرنا واجب نہیں ہوتا۔ پھر انہوں نے اس کی دلیل بیان کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں نبی ﷺ کے زمانے میں اس طرح کا کھانا بہت کم میسر آیا کرتا تھا اور جب کبھی ہمیں ایسا کھانا مل جاتا تو (کھانے کے بعد) کھانے کی چکنائی کو صاف کرنے کے لیے ہمارے پاس رومال نہیں ہوتے تھے بلکہ ہم اپنی انگلیوں کو چاٹ کر انہیں اپنی ہتھیلیوں، بازؤوں اور پاؤں کے ساتھ پونچھ لیا کرتے تھے اور پھر نماز پڑھ لیتے اور نئے سرے سے وضو نہیں کرتے تھے۔التصنيفات
وضوء کی سنتیں اور آداب