رسول اللہ ﷺ نے صاحبِ عریہ کو اس کی اجازت دی کہ اپنا عریہ اس کے اندازے سے برابر میوے کے بدلے میں بیچ ڈالے۔

رسول اللہ ﷺ نے صاحبِ عریہ کو اس کی اجازت دی کہ اپنا عریہ اس کے اندازے سے برابر میوے کے بدلے میں بیچ ڈالے۔

زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صاحبِ عریہ کو اس کی اجازت دی کہ اپنا عریہ اس کے اندازے سے برابر میوے کے بدلے میں بیچ ڈالے۔ صحیح مسلم کی روایت کے الفاظ ہیں ”بِخَرْصِهَا تَمْرًا يَأْكُلُونَهَا رُطَبًا“ یعنی اندازے سے خشک کھجور دے کر کھانے کے لیے تازہ کھجوریں حاصل کرلیں۔

[صحیح] [متفق علیہ]

الشرح

درخت پر لگے تازہ کھجوروں کے بدلے تازہ کھجوروں کی بیع حرام ہے، اسے ’مزابنہ‘ کہتے ہیں۔ اس لیے کہ اس میں طرفَین سے سودی اشیاء (وہ اشیاء جن میں سود کا حکم ہوتا ہے، جیسے سونا، چاندی وغیرہ) کی (مقدار میں) برابر ہونے میں جہالت پائی جاتی ہے۔ لیکن بیع عرایا کو شریعت نے اس (حکم) سے مستثنی قرار دیا ہے، بیع عرایا یہ ہے کہ درخت پر موجود تازہ کھجوروں کے عوض خشک کھجور دیے جائیں، اس کی کچھ شرطیں ہیں جیسے اس کی مقدار پانچ وسق سے کم ہو وغیرہ۔ پہلے زمانے میں درہم و دینار کی طرح رقم کم ہوتی تھی۔ کھجور پکنے کا زمانہ آتا، مدینہ کے لوگوں کو اس کی ضرورت ہوتی تھی، لیکن ان کے پاس یہ خریدنے کے لیے نقد رقم نہیں ہوتی تھی۔ اسی لیے آپ ﷺ نے خشک کھجوروں کے بدلے تر کھجوریں کھانے کی اجازت دی، جب کہ وہ طرفَین سے برابری کو ملحوظ رکھے یعنی اگر درخت کے کھجور سوکھ جائیں تو کتنے ہوں گے۔ اس کو خرص یعنی اندازہ کہتے ہیں۔ ’بیع عرايا‘، ’بیع مزابنہ‘ کی حرمت سے مستثنیٰ ہے۔

التصنيفات

پودوں اور پھلوں کی بیع