قیامت کے دن لوگ، یا فرمایا بندے برہنہ، غیر مختون اور خالی ہاتھ اٹھائے جائیں گے۔

قیامت کے دن لوگ، یا فرمایا بندے برہنہ، غیر مختون اور خالی ہاتھ اٹھائے جائیں گے۔

جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ مجھے ایک ایسی حدیث پہنچی جسے ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے سنا تھا، تو میں نے ایک اونٹ خریدا، پھر میں نے اس پر اپنا رخت سفر باندھا، اور ان کا قصد کر کے ایک مہینہ چلتا رہا، یہاں تک کہ میں شام پہنچ گیا، وہاں مطلوبہ صحابی عبداللہ بن انیس سے ملاقات ہوئی میں نے چوکیدار سے کہا ان سے جا کر کہو دروازے پر جابر ہے، انہوں نے پوچھا عبد اللہ کے لڑکے؟ میں نے کہا : ہاں ، چنانچہ وہ اپنے کپڑے کو گھسیٹتے ہوئے نکلے، اور مجھے گلے سے لگالیا اور میں نے بھی انہیں گلے سے لگا لیا، میں نے کہا کہ مجھے قصاص کے متعلق ایک حدیث کے بارے میں خبر پہنچی ہے کہ آپ نے اسے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے تو مجھے خوف ہوا کہ اس حدیث کے سننے سے پہلے آپ یا میں مر نہ جاؤں، انہوں نے کہا:میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ”قیامت کے دن لوگ، یا کہا بندے برہنہ، غیرمختون اور بہم اٹھائے جائیں گے“، کہتے ہیں : ہم نے پوچھا ” بُهْمًا“ کا کیا مطلب ہے؟ تو انہوں نے بتایا کہ جس کے پاس کچھ نہ ہو۔ پھر ان کو ایسی آواز سے پکار ے گا جسے وہ دور سے بالکل اسی طرح سنے گا جیسے اسے وہ قریب سے سنتا ہے کہ میں ہی حقیقی بادشاہ ہوں میں بدلہ لینے والا ہوں کسی جہنمی کے لیے یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ جہنم میں جائے اور اس کا کسی جنتی پرحق ہو یہاں تک کہ میں اس سے اس کا بدلہ دلا دوں اورکسی جنتی کے لیے یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ جنت میں داخل ہو اور اس کا کسی جہنمی پر حق ہو یہاں تک کہ میں اس سے اس کا بدلہ دلادوں، حتی کہ ایک طمانچے کا بدلہ کیوں نہ ہو۔ ہم نے پوچھا کہ جب ہم اللہ کے سامنے برہنہ، غیرمختون اور خالی ہاتھ حاضر ہوں گے تو کیسا لگے لگا؟ تو (نبی ﷺ نے) جواب دیا کہ نیکی اور بدی کے ذریعہ۔

[حَسَنْ] [اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]

الشرح

جابر بن عبد اللہ انصاری رضی اللہ عنہما خبر دے رہے ہیں کہ انہیں اس بات کا علم ہوا کہ عبد اللہ بن انیس رضی اللہ عنہ نے رسول ﷺ سے ایک ایسی حدیث سنی ہے جسے انہوں نے نہیں سنی ہے، تو انہوں نے ایک اونٹ خریدا، پھر اس پر اپنا رخت سفر باندھا اور ایک مہینہ تک سفر کرتے رہے یہاں تک کہ شام پہنچے اور عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ کےپاس جاکر دربا ن سے کہا : کہہ دو جابر دروازہ پر ہیں، عبد اللہ بن انیس رضی اللہ عنہ نے پوچھا عبد اللہ کے لڑکے؟جابر رضی اللہ عنہ نے کہا : ہاں ، پس وہ تیزی سے نکلے اور اسی تیزی کی وجہ سے کپڑے کو گھسیٹتے ہوئے نکلے، اوردونوں گلے ملے۔ جابر رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ : مجھے قصاص کے متعلق ایک حدیث کے بارے میں خبر پہنچی ہے کہ آپ نے اسے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے، تو مجھے خوف ہوا کہ کہیں اس حدیث کے سننے سے پہلے آپ یا میں مر نہ جاؤں، انہوں نے کہا:میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ”قیامت کے دن لوگ، یا فرمایا: بندے برہنہ، غیرمختون اور بہم اٹھائے جائیں گے“، کہتے ہیں : ہم نے پوچھا ” بُهْمًا“ کا کیا مطلب ہے؟ تو انہوں نے بتایا کہ جس کے پاس کچھ نہ ہو۔ یعنی اللہ تعالی قیامت کے دن لوگوں کو ایک جگہ اکٹھا کرے گا تاکہ ان سے حساب لے اور انہیں ان کے عمل کے اعتبا سے بدلہ دے، اس وقت وہ سب ننگے اور غیر مختون ہوں گے جیسا کہ انہیں ان کی ماؤں نے جنا تھا، ان کے پاس دنیا کی کوئی چیز نہیں ہوگی پھر فرمایا: ”پھر ان کو ایسی آواز سے پکار ے گا“ پکار بغیر آواز کے نہیں پائی جاتی اور بغیر آواز کے پکار سے لوگ آگاہ نہیں ہو سکتے، تو یہاں پر آواز کا ذکر ندا کی تاکید کے لیے ہے اور یہ بات بالکل صریح اور واضح ہے کہ اللہ تعالی ایسا کلام فرماتا ہے جسے سنا جاتا ہے اور اس کلام میں آواز ہوتی ہے لیکن اس کی آواز مخلوق کی آواز کے مشابہ نہیں ہے اسی لیے فرمایا: ”اسے وہ بالکل اسی طرح سنے گا جیسے اسے وہ قریب سے سنتا ہے“۔ یہ صفت اللہ تعالی کی آواز کے ساتھ خاص ہے اور مخلوق کی آواز کو آواز کی قوت و ضعف کے لحاظ سےصرف قریب سے سنا جا سکتا ہے اور اس کے ثبوت میں کثرت سے نصوص وارد ہیں، اس میں سے ایک اللہ تعالی کا یہ فرمان:﴿وَنَادَاهُمَا رَبُّهُمَا أَلَمْ أَنْهَكُمَا﴾ ”اور ان کے رب نے ان کو پکارا، کیا میں تم دونوں کو اس درخت سے منع نہ کرچکا تھا؟“۔ اور اللہ تعالی کا یہ فرمان: ﴿وَنَادَيْنَاهُ مِن جَانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ وَقَرَّبْنَاهُ نَجِيًّا﴾ ”ہم نے اسے طور کی دائیں جانب سے ندا کی اور رازگوئی کرتے ہوئے اسے قریب کر لیا“۔ نیز اللہ تعالی کا یہ فرمان: ﴿وَإِذْ نَادَىٰ رَبُّكَ مُوسَىٰ أَنِ ائْتِ الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ﴾ ”اور جب تمہارے رب نے موسی کو آواز دی کہ تو ظالم قوم کے پا س جا“۔ پھر فرمایا: ”میں بادشاہ ہوں میں بدلہ دینے والا ہوں“ یعنی محشر میں کھڑے ہوئے سبھی جس ندا کو سنیں گے وہ، اس ندا کو دور کی مسافت سے اسی طرح سنیں گے جس طرح وہ قریبی مسافت سے سنتے ہیں۔ ”میں بادشاہ ہوں میں بدلہ دینے والا ہوں“ پس وہی بادشاہ ہے جس کے ہاتھ میں آسمان و زمین اور جو کچھ اس میں ہے اس کی بادشاہت ہے، وہ الديّان ہے جو بندوں کو ان کے عمل کے مطابق بدلہ دے گا، پس جس نے خیر کے کام کیے اسے اس کے عمل سے بہتر بدلہ دیگا اور جس نے شر کے کام کیے اسے اس کے مستحق بدلہ دے گا۔ پھر فرمایا: ”کسی جہنمی کے لیے یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ جہنم میں جائے اور اس کا کسی جنتی پر حق ہو یہاں تک کہ میں اس سے اس کا بدلہ دلادوں، اور کسی جنتی کے لیے یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ جنت میں داخل ہو اور اس کا کسی جہنمی پر حق ہو یہاں تک کہ میں اس سے اس کا بدلہ دلادوں، یہاں تک کہ تھپڑ کا بدلہ بھی۔ یعنی: اللہ تعالی اپنے بندوں کے درمیان عدل کے ساتھ فیصلہ فرمائے گا اور ظالم سے مظلوم کا حق لے گا، چنانچہ کوئی جہنمی اس حال میں جہنم میں داخل نہیں ہو گا کہ اس کا کسی جنتی پرحق ہو، یہاں تک کہ اس کا حق اس سے دلائے گا، اور یہی مکمل عدل کا تقاضا ہے کیونکہ کافر اور ظالم باوجود اس کے کہ وہ جہنم میں جائیں گے مگر ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا، اگر جنت والوں میں سے کسی کے پاس اس کا حق ہوگا تو ان سے لے کر اس کو دلایا جائے گا اور بالکل اسی طرح اہل جنت کے ساتھ کیا جائے گا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نبی ﷺ سے پوچھا: لوگوں کو کیسے ان کے حقوق دلائے جائیں گے جب کہ ان کے پاس دنیا کی کوئی چیز نہیں ہوگی؟۔ تو نبی ﷺ نے فرمایا: ”نیکی اور بدی کے ذریعہ“ یعنی حقوق کی ادائیگی اس طرح ہوگی کہ مظلوم ظالم کی نیکیاں لے لے گا اور جب ظالم کی نیکیاں ختم ہوجائیں گی تو مظلوم کے گناہوں کو لے کر ظالم کے گناہوں پر لاد دیا جائے گا پھر اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا جیسا کہ حدیث میں وارد ہے۔

التصنيفات

توحيدِ اسماء وصفات, اخروی زندگی