إعدادات العرض
ابو بکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔
ابو بکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔
ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ کی تکلیف میں اضافہ ہو گیا تو آپ ﷺ سے نماز کے بارے میں دریافت کیا گیا (کہ اسے کون پڑھائے؟)۔ آپ ﷺ نے فرمایا:”ابو بکر سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں“۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ابو بکر بہت رقیق القلب آدمی ہیں۔ وہ جب قرآن پڑھتے ہیں تو انہیں رونا آ جاتا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”انہیں کہو کہ وہ نماز پڑھائیں“۔ عائشہ سے مروی ایک اورحدیث میں ہے کہ: میں نے کہا: ابو بكر جب آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو رونے کی وجہ سے ان کی آواز لوگوں کو سنائی نہیں دے گی۔
[صحیح] [متفق علیہ]
الترجمة
العربية বাংলা Bosanski English Español فارسی Français Bahasa Indonesia Русский Tagalog Türkçe 中文 हिन्दी ئۇيغۇرچە Hausa Kurdîالشرح
جب رسول اللہ ﷺ کی تکلیف بڑھ گئی اور لوگوں کی امامت کرنا آپ ﷺ کے لیے ممکن نہ رہا تو آپ ﷺ کے پاس جو لوگ موجود تھے انہیں آپ ﷺ نے حکم دیا کہ وہ ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہیں کہ وہ آپ ﷺ کی جگہ پرامامت کریں۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ جب قرآن پاک کی تلاوت فرماتے تو بہت رویا کرتے تھے۔ عائشہ رضی اللہ عنہ نے اس سلسلے میں عذر پیش کیا تاہم اس باب کی حدیث میں ہے کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ کا قرآن کریم کے پڑھنے پر رونا ان کا اصلی مقصود نہیں تھا بلکہ ان کا مقصد دراصل یہ تھا کہ کہیں لوگ ان کے والد سے بد شگونی نہ لیں۔ لہذا آپ رضی اللہ عنہا نے باطن کے علاوہ بات ظاہر کی۔ مسلم شریف کی روایت میں ہے کہ انہوں نے کہا: مجھے بس یہ بات ناپسند تھی کہ کہیں یہ نہ ہو کہ جو شخص سب سے پہلے رسول اللہ ﷺ کی جگہ کھڑا ہو اس سے لوگ بد شگونی لیں۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے دو یا تین بار آپ ﷺ سےاس موضوع پر بات کی۔ آپ ﷺ نے فرمایا:’’تم تو ان عورتوں کی طرح ہو جن سے یوسف علیہ السلام کو واسطہ پڑا تھا۔‘‘ مراد یہ ہے کہ تم ان عورتوں کی طرح ہو جن سے یوسف علیہ السلام کو سامنا تھا کہ جو دل میں ہے اس کے برخلاف ظاہر کر رہی ہو۔ یہ بات اگرچہ جمع کے صیغہ سے کی گئی تاہم اس سے مراد صرف عائشہ رضی اللہ عنہا ہیں جیسا کہ یوسف والی عورتوں سے مراد صرف زلیخا ہے۔ حافظ ابن حجر نے ایسے ہی لکھا ہے۔ زلیخا اس وقت عزیز مصر کی بیوی تھی۔ ان دونوں کے مابین وجہ مشابہت یہ ہے کہ زلیخا نے عورتوں کو بلایا اور مہمان نوازی کی شکل میں ان کی عزت افزائی کی حالانکہ اس سے اس کی مراد کچھ اورتھی اور وہ یہ کہ وہ یوسف علیہ السلام کے حسن کو ملاحظہ کر سکیں اور یوں اسے اس کی محبت میں معذور گردانیں۔عائشہ رضی اللہ عنہا نے اظہار اسی بات کا کیا کہ اپنے ابا سے امامت دور رکھنے سے ان کا منشا یہ ہے کہ مقتدی ان کے رونے کی وجہ سے ان کی آواز نہیں سن سکیں گے جب کہ ان کی مراد دراصل یہ تھی کہیں لوگ ان سے بد شگونی نہ لیں جیسا کہ انہوں نے حدیث کی بعض دوسری روایات میں اس کی صراحت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے: ”مجھے آپ ﷺ سے بات کرنے پر جس شے نے آمادہ کیا وہ یہ تھی کہ میرا دل اس بات کو قبول نہیں کر رہا تھا کہ لوگ آپ ﷺ کے بعد کسی شخص کا آپ ﷺ کی جگہ پر کھڑا ہونا پسند کر لیں گے“۔