إعدادات العرض
وہ رزق تھا جسے اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے بھیجا تھا، کیا تمہارے پاس اس کے گوشت سے کچھ بچا ہے، اس میں سے ہمیں بھی کھلاؤ! ہم نے اس میں سے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بھیجا تو آپ…
وہ رزق تھا جسے اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے بھیجا تھا، کیا تمہارے پاس اس کے گوشت سے کچھ بچا ہے، اس میں سے ہمیں بھی کھلاؤ! ہم نے اس میں سے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بھیجا تو آپ ﷺ نے اسے کھایا۔
ابو عبد الله جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کو ہم پر امیر بنا کر قریش کا ایک قافلہ پکڑنے کے لیے روانہ کیا اور زاد سفر کے لیے ہمارے ساتھ کھجور کا ایک تھیلہ تھا، اس کے علاوہ ہمارے پاس کچھ نہیں تھا۔ ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ ہمیں ہر روز ایک ایک کھجور دیا کرتے تھے، ہم لوگ اسے اس طرح چوستے تھے جیسے بچہ چوستا ہے، پھر پانی پی لیتے، اس طرح وہ کھجور ہمارے لیے ایک دن اور ایک رات کے لیے کافی ہو جاتی، نیز ہم اپنی لاٹھیوں سے درخت کے پتے جھاڑتے پھر اسے پانی میں تر کر کے کھاتے، پھر ہم ساحل سمندر پر چلے توریت کے ٹیلہ جیسی ایک چیز ظاہر ہوئی، جب ہم لوگ اس کے قریب آئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہ ایک مچھلی ہے جسے عنبر کہتے ہیں۔ ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ مردار ہے اور ہمارے لیے جائز نہیں۔ پھر وہ کہنے لگے: نہیں ہم رسول اللہ ﷺ کے بھیجے ہوئے لوگ ہیں اور اللہ کے راستے میں ہیں اور تم مجبور ہو چکے ہو لہٰذا اسے کھاؤ، ہم وہاں ایک مہینہ تک ٹھہرے رہے اور ہم تین سو آدمی تھے یہاں تک کہ ہم (کھا کھا کر) موٹے تازے ہو گئے، جب ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے تو آپ سے اس واقعہ کا ذکر کیا، تو آپ نے فرمایا: ”وہ رزق تھا جسے اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے بھیجا تھا، کیا تمہارے پاس اس کے گوشت سے کچھ بچا ہے، اس میں سے ہمیں بھی کھلاؤ“ ہم نے اس میں سے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بھیجا تو آپ ﷺ نے اسے کھایا۔
الترجمة
العربية বাংলা Bosanski English Español فارسی Français Bahasa Indonesia Русский Tagalog Türkçe 中文 हिन्दी Tiếng Việt සිංහල Kurdî தமிழ்الشرح
آپ ﷺ نے ایک سریہ بھیجا۔ اس کا امیر ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کو بنایا، تاکہ قریش کے اس قافلہ کو پکڑلیں جو اناج اور گیہوں لیے جارہا تھا، آپ ﷺ نے ان کو چمڑے کا ایک برتن دیا جس میں کھجوریں تھیں، ان کا امیر توشہ کم ہونے کی وجہ سے ہر ایک کو ایک کھجور دیتا، وہ اسے چوستے تھے اور اس پر پانی پیتے تھے، وہ اپنی لاٹھیوں سے پتّے جھاڑتے جنہیں اونٹ کھاتے ہیں، پھر ان پتّوں کو پانی میں بھگوتے، جب ان کی سختی چلی جاتی تو کھاتے تھے، جب وہ لوگ ساحل پر پہنچے تو انہوں نے ریت کے ٹیلے کے برابر کوئی چیز دیکھی، وہ بڑی مچھلی تھی، اسے عنبر کہتے تھے، ان کے امیر ابو عبیدہ نے ان کو وہ کھانے سے منع کیا، اس لیے کہ وہ مُردار ہے اور مُردار قرآن کی صراحت سے حرام ہے، پھر ان کا اجتہاد بدل گیا اور اس کو کھانے کی اجازت دی، اس لیے کہ ضرورت کے موقع پر مُردار کھانا بھی جائز ہے، خاص کر جب اللہ کی اطاعت والے سفر میں ہوں، انہیں یہ بات معلوم نہیں تھی کہ سمندری مُردار حلال ہے۔ پھر انہوں نے مجبوری کو دلیل بنا کر اسے کھایا اور اپنے ساتھ لے گئے، جب وہ مدینے آئے اور آپ ﷺ کو خبر دیا، آپ ﷺ نے انہیں اپنے فعل پر قائم رکھا اور آپ ﷺ نے بھی اس سے کھایا۔