صحابہ کرام اور اہل صفہ رضی اللہ عنہم کی دنیا سے بے رغبتی

صحابہ کرام اور اہل صفہ رضی اللہ عنہم کی دنیا سے بے رغبتی

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے ستر اصحاب صفہ کو دیکھا جن میں سے کسی ایک کے بدن پر بھی چادر نہ تھی، یا تو لنگی (تہہ بند) تھی، یا ایک ایسا کپڑا، جس کو گلے میں انہوں نے باندھ رکھا تھا۔ ان میں سے (لنگی، تہہ بند) کسی کے آدھی پنڈلی تک تھی، کسی کے ٹخنوں تک۔ اپنے ہاتھ سے وہ اس کو سمیٹے رہتے تھے تاکہ ستر نہ کھل جائے۔

[صحیح] [اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]

الشرح

اہلِ صفہ نبی ﷺ کے وہ صحابہ ہیں جو غریب مہاجرین میں سے ہیں جنہوں نے اپنا گھر بار مکہ میں چھوڑ کر مدینہ کی طرف ہجرت کی باوجود اس کے کہ یہ ان کا محبوب ترین شہر تھا۔ اصحاب صفہ کی تعداد ستر افراد سے زیادہ تھی ۔ صفہ ایک سایہ دار چبوترا تھا جو مسجد نبوی کے آخر میں بنا ہوا تھا جس کے نیچے فقیر مہاجرین سویا کرتے تھے۔ گرمیوں یا سردیوں میں جو ان کا لباس ہوتا تھا اس کے بارے میں حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ جو خود بھی اصحابِ صفہ میں سے تھے ہمیں بتا رہے ہیں کہ ”کسی ایک کے بدن پر بھی چادر نہ تھی، یا تو لنگی (تہہ بند) تھی، یا ایک کپڑا“۔ کیونکہ اگر کوئی چاد باندھتا تو اس کے نیچے سے لنگی پہننی پڑتی۔ چادر سے مراد وہی ہے جسے آج کل جوڑا کہا جاتاہے ۔ ابوہریرۃ فرماتے ہیں کہ ان میں سے کسی کے پاس بھی پورا جوڑا نہیں تھا بلکہ ایک ہی کپڑا ہوتا جس سے وہ اپنے آپ کو اوپر سے لے کر نیچے تک چھپایا کرتے تھے۔ یہ کپڑا ایک چھوٹی سی لنگی کے مانند ہوتاہے۔ ابوہریرۃ فرماتے ہیں کہ ”جس کو گلے میں انہوں نے باندھ رکھا تھا“۔ یعنی وہ اس کپڑے کو اس طرح سے اپنے گلے میں باندھے رکھتے جیسے کوئی بچہ اپنے گلے میں اپنا کپڑا باندھ لیتاہے۔ ایسا وہ اس لیے کرتا کیونکہ وہ کپڑا اتنا زیادہ نہیں ہوتا تھا کہ وہ اسے الگ الگ کرکے پہن سکتا۔ چنانچہ اس کا ایک کنارہ اس کی گردن میں ہوتا۔اللہ تعالی ان سے راضی ہو۔ پھر ابو ہریرۃ نے فرمایا: ”وہ چادر کسی کے آدھی پنڈلی تک رہتی“ یعنی اس کپڑے کی لمبائی صرف اتنی ہوتی کہ وہ نصف پنڈلی تک آتا تھا اور ٹخنوں تک نہیں پہنچتا تھا۔ پھر فرمایا کسی کے ٹخنوں تک اور اپنے ہاتھ سے وہ اس کو سمیٹے رہتے تاکہ ستر نہ کھل جائے۔ یعنی دورانِ نماز وہ اسے اپنے آپ پر اکٹھا کرتے رہتے کہ مبادا حالت رکوع و سجدہ میں ان کی شرم گاہ نہ کھل جائے۔ رضی اللہ تبارک و تعالی عنہم اجمعین۔ اکثر صحابہ کی یہی حالت تھی۔ انہوں نے فقر اور ضرورت مندی میں اپنی زندگی گزار دی۔ دنیا اور اس کی زینت کی طرف ذرا بھی مائل نہ ہوئے ۔ اور جب دنیا ان پر کھلی (یعنی کشادگی آئی) تو تب بھی اس میں مصروف نہیں ہوئے بلکہ اپنی قناعت اور زہد پر قائم رہے یہاں تک کہ اللہ تعالی نے انہیں اپنے پاس بلا لیا۔

التصنيفات

فضائل و آداب, نیک لوگوں کے احوال