إعدادات العرض
میں جس بات سے تمہیں منع کروں اس سے اجتناب کرو اور جس بات کا حکم دوں اسے مقدور بھر سر انجام دو۔ تم سے پہلی امتوں کی ہلاکت کا سبب ان کا بہت زیادہ سوالات کرنا اور ان کی اپنے…
میں جس بات سے تمہیں منع کروں اس سے اجتناب کرو اور جس بات کا حکم دوں اسے مقدور بھر سر انجام دو۔ تم سے پہلی امتوں کی ہلاکت کا سبب ان کا بہت زیادہ سوالات کرنا اور ان کی اپنے انبیاء کی مخالفت کرنا بنا تھا۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میں جس بات سے تمہیں منع کروں اس سے اجتناب کرو اور جس بات کا حکم دوں اسے مقدور بھر سر انجام دو۔ تم سے پہلی امتوں کی ہلاکت کا سبب ان کا بہت زیادہ سوالات کرنا اور ان کی اپنے انبیاء کی مخالفت کرنا بنا تھا“۔
الترجمة
العربية বাংলা Bosanski English Español Français Bahasa Indonesia Русский Tagalog Türkçe 中文 हिन्दी ئۇيغۇرچە Kurdî Hausa Português മലയാളം తెలుగు Kiswahili فارسی မြန်မာ Deutsch 日本語 پښتو Tiếng Việt অসমীয়া Shqip සිංහල தமிழ்الشرح
رسول اللہ ﷺ نے ہماری رہنمائی کی اور فرمایا کہ جب آپ ﷺ ہمیں کسی چیز سے منع کردیں تو ہم پر لازم ہے کہ ہم بلا استثناء اس سے اجتناب کریں اور جب آپ ﷺ ہمیں کسی شے کے کرنے کا حکم دیں تو ہم پر واجب ہیں کہ ہم مقدور بھر اسے سر انجام دیں۔ پھر آپ ﷺ نے ہمیں اس بات سے ڈرایا کہ ہم سابقہ امتوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہوں نے اپنے انبیاء سے بہت زیادہ سوالات کیے اور پھر اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے ان کی مخالفت بھی کی۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے انہیں ہلاکت و بربادی کے مختلف قسم کے عذاب میں مبتلا کر دیا۔ لہذا مناسب یہ ہے کہ ہم ان کی طرح نہ ہوں، کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم بھی ویسے ہی ہلاک ہو جائیں جیسے وہ ہوئے۔فوائد الحديث
اوامر کی بجا آوری اورنواہی سے بچنے کا حکم۔
نہی کے ارتکاب کی ذرا بھی اجازت نہیں دی گئی ہے، جب کہ امر کو استطاعت کے ساتھ مقید کردیا گیا ہے، کیوں کہ آدمی ترک کی قدرت رکھتا ہے اور فعل کے لیے مامور بہ کام کو انجام دینے کی قدرت کی ضرورت ہوتی ہے۔
زیادہ سوال کرنے کی ممانعت۔ علما نے سوال کی دوقسمیں کی ہیں: ایک، جو دین کی ضروری بات سیکھنے کےلیے ہو۔ یہ ماموربہ ہے۔ صحابۂ کرام کے سوالات اسی نوع کے ہوتے تھے۔ دوسری جو بہ طور تکلّف اور پریشان کرنے کے لیے ہو۔ اسی سے روکا گیا ہے۔
اس امّت کو سابقہ قوموں کی طرح اپنے نبیﷺ کی مخالفت میں پڑنے سے متنبہ کیا گیا ہے۔
کسی چیز کی ممانعت میں اس کا قلیل اور کثیر دونوں شامل ہوتا ہے۔ کیوں اس سے (مکمل طور پر) اسی وقت بچا جاسکتاہے، جب اس کے کم اور زیادہ مقدار دونوں سے بچاجائے۔ مثال کے طورپر ہمیں سود سے منع کیا گیا ہے، تو اس میں اس کی کم اور زیادہ مقدار دونوں شامل ہوگی۔
حرام تک پہنچانے والے اسباب کو چھوڑدینا چاہیے، اس لیے کہ یہ اجتناب کے معنیٰ میں داخل ہے۔
انسان صاحب استطاعت اور قدرت والا ہے، کیوں کہ آپ کا فرمان ہے: "مَا استَطَعْتُمْ" جتنی تمہیں طاقت ہو۔ چناںچہ اس میں جبریہ کی تردید ہے، جو کہتے ہیں کہ انسان کے پاس کوئی استطاعت نہیں ہے اور وہ عمل پر مجبور ہے، یہاں تک کہ انسان گفتگو کے وقت اپنے ہاتھ سے جو حرکت کرتا ہے، ان کے قول کے مطابق ہاتھ کی وہ حرکت بھی اس کی استطاعت میں نہیں ہے۔ وہ بالکل مجبور ہے۔ بلاشبہ یہ باطل قول ہے، جس پر بڑے مفاسد مرتب ہوتے ہیں۔
کسی انسان کے لیے مناسب نہیں کہ جب وہ رسولﷺکا حکم سنے توکہےکہ کیا یہ واجب ہے یا مستحب؟ کیوں کہ آپ کا فرمان ہے: "فَأْتُوا مِنْهُ مَا استَطَعْتُمْ". یعنی تم اس میں سے اپنے مقدور بھر سر انجام دو۔
نبیﷺ جس بات کا حکم دیں یا جس سے منع فرمائیں، وہ شریعت ہے، خواہ وہ قرآن میں ہو یا نہ ہو۔ لہذا سنت سے ثابت ان اوامر اور نواہی پر بھی عمل کیا جائے گا، جو قرآن میں نہیں ہیں۔
زیادہ سوال کرنا ہلاکت کا سبب ہے، بالخصوص ایسی باتوں کے بارے میں جن کا جان پانا ممکن نہ ہو، جیسے اللہ کے اسما و صفات اور قیامت کے احوال۔ ان کے بارے میں زیادہ سوال نہ کرو، ورنہ ہلاک ہوجاؤ گے اور تمھارا شمار غلو کرنے والوں ہوگا۔
گزشتہ امتیں کثرت سوال اور اپنے انبیا کے بارے میں زیادہ اختلاف کرنے کے سبب ہلاک ہوگئیں۔