إعدادات العرض
نبی ﷺ نے قبیلۂ ازد کے ایک شخص کو، جنھیں ابن لتبیہ کہا جاتا تھا، زکاۃ کی وصولی کے لیے عامل مقرر کیا۔ جب وہ (وصول کر کے) آئے، تو کہنے لگے: یہ مال تمھارے لیے ہے (یعنی…
نبی ﷺ نے قبیلۂ ازد کے ایک شخص کو، جنھیں ابن لتبیہ کہا جاتا تھا، زکاۃ کی وصولی کے لیے عامل مقرر کیا۔ جب وہ (وصول کر کے) آئے، تو کہنے لگے: یہ مال تمھارے لیے ہے (یعنی مسلمانوں کا) اور یہ مجھے ہدیہ میں ملا ہے۔ رسول اللہ ﷺ منبر پر کھڑے ہوئے اور اللہ کی حمد و ثنا بیان کی
ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ نے قبیلۂ ازد کے ایک شخص کو، جنھيں ابن لتبیہ کہا جاتا تھا، زکاۃ کی وصولی کے لیے عامل مقرر کیا۔ جب وہ (وصول کر کے) آئے، تو کہنے لگے: یہ مال تمھارے لیے ہے (یعنی مسلمانوں کا) اور یہ مجھے ہدیے میں ملا ہے۔ تو رسول اللہ ﷺ منبر پر کھڑے ہوئے اور اللہ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا: میں تم میں سے کسی کو اس کام پر عامل بناتا ہوں، جس کا اللہ نے مجھے والی بنایا ہے۔ پھر وہ آتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ تمھارا مال ہے اور یہ تحفہ ہے جو مجھے دیا گیا ہے! اگر وہ سچا ہے، تو کیوں نہیں وہ اپنی ماں یا باپ کے گھر بیٹھا رہا، پھر دیکھتا کہ اسے ہدیہ ملتا ہے کہ نہیں! اللہ کی قسم ! تم میں سے جو بھی حق کے سوا کوئی چیز لے گا، وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ اس چیز کو اٹھائے ہوئے ہوگا؛ بلکہ میں تم میں ہر اس شخص کو پہچان لوں گا، جو اللہ سے اس حال میں ملے گا کہ اونٹ اٹھائے ہوگا، جو بلبلا رہا ہوگا، گائے اٹھائے ہوگا، جو اپنی آواز نکال رہی ہوگی یا بکری اٹھائے ہوگا، جو ممیا رہی ہوگی۔ پھر آپ نے اپنا ہاتھ اٹھایا، یہاں تک کہ آپ کے بغل کی سفیدی دکھائی دینے لگی اور فرمایا: اے اللہ! کیا میں نے پہنچا دیا؟۔
الترجمة
العربية Bosanski English Español فارسی Français Bahasa Indonesia Türkçe 中文 हिन्दी ئۇيغۇرچە Kurdî Русскийالشرح
نبی ﷺ نےقبیلۂ ازد کے ایک آدمی کو جنھیں ابن لتبیہ کہا جاتا تھا صدقہ اکٹھا کرنے کا مکلف بنایا۔ جب وہ اپنے کام سے واپس ہو کر مدینہ پہنچے، تو اپنے پاس موجود کچھ مال کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ مال آپ مسلمانوں کی جماعت کے لیے ہے اور یہ مجھے ہدیۃً دیا گیا ہے! تو نبی ﷺ منبر پر کھڑے ہوئے؛ تاکہ لوگوں کو بتائیں اور اس کام سے انھیں ڈرائیں۔ اللہ کی حمد و ثنا بیان کی، پھر فرمایا: بے شک میں کسی کو زکاۃ اور مال غنیمت وغیرہ کی وصولی کا عامل بناتا ہوں، جس کا مجھے اختیار عطا کیا ہے۔ پھر وہ اپنے کام سے واپس آکر کہتا ہے: یہ آپ لوگوں کے لیے ہے اور یہ ہدیہ ہے، جو مجھے دیا گیا ہے! اگر وہ اپنی بات میں سچا ہے تو کیوں نہیں اپنے باپ کے گھر میں یا ماں کے گھر میں بیٹھا رہا کہ اس کے پاس ہدیہ آجاتا؟ اللہ کی قسم! جو شخص عامل رہتے ہوئے کوئی عطا کی ہوئی چیز لےگا، وہ قیامت کے دن اللہ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اس چیز کو اپنی گردن پر اٹھائے ہوئے ہوگا۔ اگرچہ وہ اونٹ ہو، گائے ہو یا بکری ہی کیوں نہ ہو! پھر آپ ﷺ نے اپنے دونوں ہاتھ اس قدر اٹھائےکہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے آپ کے بغل کی سفیدی دیکھی، پھر آپ ﷺ نے تین مرتبہ فرمایا : اے اللہ ! میں نے پہنچا دیا!