إعدادات العرض
رسول اللہ ﷺ نے ہمیں سات چیزوں کا حکم دیا تھا اور سات چیزوں سے ہم کو منع فرمایا تھا۔
رسول اللہ ﷺ نے ہمیں سات چیزوں کا حکم دیا تھا اور سات چیزوں سے ہم کو منع فرمایا تھا۔
براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں سات چیزوں کا حکم دیا تھا اور سات چیزوں سے منع فرمایا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بیمار کی عیادت کرنے، جنازے کے پیچھے چلنے، چھینکنے والے کے جواب میں ”يرحمك الله“ کہنے، قسم (یا قسم کھانے والے کی قسم) كو پورا کرنے، مظلوم کی مدد کرنے، دعوت دینے والے کی دعوت قبول کرنے اور سلام پھیلانے کا حکم فرمایا تھا اور آپ صﷺ نے ہمیں سونے کی انگوٹھیوں سے-یاسونے کیانگوٹھیاں پہننے سے-، چاندی کے برتن میں پینے سے، 'میثر' (کجاوے کے اوپر کے ریشمی گدے) اور 'قسی' (قس نامی مصری بستی کی طرف منسوب ریشمی کپڑے) کے استعمال کرنے سے اور ریشم، 'استبرق' (دیباج سے زیادہ دبیز اور موٹن ریشمی کپڑا) اور 'دیباج' (باریک ریشمی کپڑا) پہننے سے منع فرمایا تھا۔
[صحیح] [متفق علیہ]
الترجمة
العربية Bosanski English Español فارسی Français Bahasa Indonesia Русский Türkçe 中文 हिन्दी Hausa Português മലയാളം Kurdî Tiếng Việt Nederlands Kiswahili অসমীয়াالشرح
نبی کریم ﷺ کو دنیا میں اس مقصد سے مبعوث کیا گیا کہ آپ اعلی اخلاق کی تکمیل فرمادیں؛ یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ ہر طرح کے اعلی و عظیم اخلاق و اعمال کی ترغیب فرماتےاور ہر قبیح و ناشائستہ اخلاق و اعمال سے منع فرمایا کرتے۔ آپ ﷺ کے انھی اوامر میں سے کچھ اشیا کا ذکر اس حدیث میں ہے۔ ان میں سے پہلا یہ ہے کہ مریض کی عیادت کی جائے۔ جو درحقیقت ایک اسلامی حق کی ادائیگی، اسے قدرے راحت رسانی اور اس کے حق میں دعاسے عبارت ہے۔ دوسرا یہ ہے کہ جنازہ کے پیچھے چلا جائے؛ کیوں کہ یہ جنازے کے پیچھے چلنے والےکے لیے اجرو ثواب، میت کے حق میں دعا، اہل قبور کے حق میں سلام، وعظ و نصیحت اور عبرت و سبق آموزی وغیرہ پر مشتمل ہے۔ تیسرا یہ ہے کہ چھینکنے والے کے "الحمدللہ" کہنے کے جواب میں "یرحمک اللہ" کہا جائے۔ چوتھا ہے قسم کھانے والے کی قسم پوری کرنا۔ جب وہ تمھیں (قسم دے کر) کسی کام کے لیے بلائے اوراس کی قسم پوری کرنے میں تمھیں کسی طرح کا نقصان نہ ہو، تو اس کی قسم کو پوری کردو؛ تاکہ وہ قسم کا کفارہ ادا کرنے پر مجبور نہ ہوجائے۔ اس کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے اس کی دل جمعی کا سامان کردو۔ پانچواں یہ ہے کہ مظلوم کی ظالم کے خلاف مدد کی جائے؛ کیوں کہ اس عمل میں ظلم کا تدارک، ظالم کو اس کی دست درازیوں سے روکنا، اس کو ایذا رسانی سے باز رکھنا، منکر و برائی سے منع کرنا، جیسے امور شامل ہیں۔ چھٹا امر ہے دعوت دینے والے کی دعوت پر لبیک کہنا؛ کیوں کہ دعوت قبول کرنا در اصل دلوں میں قربت پیدا کرنے اور شکوک وشبہات سے پاک رکھنے کا ایک ذریعہ ہے اور اس سے باز رہنے کی صورت میں احساس بے گانگی اور باہمی نفرت انگیزیاں پروان چڑھتی ہیں۔ دعوت اگر شادی کی ہو، تو اس کا قبول کرنا واجب ہے اور دیگر دعوتوں کا قبول کرنا مستحب ہے۔ ساتواں امر یہ ہے کہ سلام کو عام کیا جائے۔ یہ دراصل ہر کس و ناکس کے لیے سلامتی کا اعلان و اظہار، سنت کی تعمیل، مسلمانوں کی ایک دوسرے کے حق میں سلامتی کی دعا اور محبت و یگانگت پیدا کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ اس حدیث میں جن چیزوں سے منع کیا گيا ہے، ان میں سے ایک یہ ہے کہ مرد حضرات سونے کی انگوٹھیا ں نہ پہنیں؛ کیوں کہ اس سے نسوانیت و زنانہ پن کی طرف میلان اور مردانگی کی نفی ہوتی ہے۔ دوسری یہ ہے کہ چاندی کے برتن میں نہ پیا جائے؛ کیوں کہ اس میں مال کی تباہی اور تکبر کا اظہار ہےاور جب ان برتنوں میں پینے سے روک دیا گیا، جو انسانی زندگی کی اہم ضرورت ہے، تو مابقی دیگر تمام استعمالات میں یہ ممانعت اور حرمت بدرجۂ اولی ثابت ہوتی ہے۔ تیسری یہ ہے کہ میاثر (زین یا کجاوہ کے اوپر ریشم کا گدا)، قسی (مصر کے قس نامی ایک دیہات سے منسوب اوراطراف مصر میں تیار کیا جانے والا ایک کپڑا، جس میں ریشم کے دھاگے بھی استعمال ہوتے تھے)، حریر (ریشمی لباس)، دیباج (باریک ریشمی کپڑا) اور استبرق (دیباج سے زیادہ دبیز اور موٹا ریشمی کپڑا) جیسے ریشمی لباس کی تمام انواع کو مردوں کے لیے حرام قرار دیا گیا؛ کیوں کہ ملبوسات کی یہ تمام انواع، انسانی مزاج میں سستی اور عیش پرستی پیدا کرتی ہیں اور یہ دونوں چیزیں مزاج میں جمود و تعطل اور بے راہ روی کا سبب بنتی ہیں، جب کہ مردوں کی مردانگی کا تقاضا یہ ہے کہ وہ چاق و چوبند رہیں اور جفاکشی اور اولو العزمی کی صفات کے حامل ہوں؛ تاکہ اپنے دین، اپنے اہل و عیال اور اپنے وطن کے دفاعی فرائض کی انجام دہی میں ہمیشہ کمر بستہ رہیں۔