میں یہ جھنڈا اس شخص کو دوں گا، جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہے۔ اللہ اس کے ہاتھ پر فتح عطافرمائے گا"۔

میں یہ جھنڈا اس شخص کو دوں گا، جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہے۔ اللہ اس کے ہاتھ پر فتح عطافرمائے گا"۔

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خیبر کے دن فرمایا : "میں یہ جھنڈا اس شخص کو دوں گا، جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہے۔ اللہ اس کے ہاتھ پر فتح عطافرمائے گا"۔ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں : اس ایک دن کے علاوہ میں نے کبھی امارت کی تمنا نہیں کی۔ وہ مزید کہتے ہیں : میں نے اس امید سے کہ مجھے اس کے لیے بلایا جائے گا، اپنی گردن اونچی کر دی۔ وہ آگے کہتے ہیں : تاہم رسول اللہ ﷺ نے علی بن ابی طالب کو بلایا، ان کو جھنڈا دیا اور فرمایا : "جاؤ، پیچھےمڑ کر نہ دیکھو، یہاں تک کہ اللہ تمھیں فتح عطا کردے"۔ عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : علی کچھ دور گئے، پھر ٹھہر گئے، پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور بلند آواز سے پکار کر کہنے لگے : اے اللہ کے رسول! میں کس بات پر لوگوں سے جنگ کروں؟ آپ ﷺ نے فرمایا : "ان سے لڑو، یہاں تک کہ وہ اس بات کی گواہی دے دیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد (ﷺ) اللہ کے رسول ہیں۔ اگر انھوں نے ایسا کرلیا، تو انھوں نے اپنی جانیں اور اپنے مال تم سے محفوظ کرلیے۔ ہاں، ان سے کوئی حق جڑ جائے، تو بات الگ ہے۔ ان کاحساب اللہ پر ہوگا"۔

[صحیح] [اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]

الشرح

اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کو بتایا کہ آئندہ کل مسلمانوں کو مدینہ کے قریب واقع ایک شہر خیبر کے یہودیوں پر فتح مل جائے گی۔ یہ فتح ایک ایسے شخص کے ہاتھ پر نصیب ہوگی، جسے آپ علَم، جو لشکر کا شعار ہوا کرتا ہے، عطا کریں گے، اس شخص کا ایک وصف یہ ہوگا کہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہے اور اللہ اور اس کے رسول کو اس سے محبت ہے۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بتاتے ہیں کہ ایک وہی دن تھا، جب ان کے اندر امارت کی محبت جاگی اور دل میں بلائے جانے کی خواہش اس امید میں پیدا ہوئی کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ذریعہ بیان کردہ اللہ اور اس کے رسول کی محبت حاصل کرنے کی سعادت ان کو حاصل ہو جائے۔ وہ اپنے جسم کو دراز کر کے قد کو ذرا اونچا کرنے لگے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی نظر پڑجائے، ان کا نام پکار لیا جائے اور علَم عطا کر دیا جائے۔ تاہم اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے علی بن ابو طالب کو بلایا، علَم عطا کر دیا اور حکم دیا کہ لشکر کے ساتھ چل پڑیں اور دشمن سے ملنے کے بعد ان قلعوں پر فتح حاصل ہو جانے تک راحت کی طلب میں یا صلح کی بنا پر جنگ سے دست بردار نہ ہوں۔ چنانچہ علی رضی اللہ عنہ چل پڑے۔ ایک بار رکے بھی، تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم کی مخالفت سے بچنے کے لیے پیچھے مڑے نہيں، خیبر کی جانب منہ کر کے ہی بلند آواز سے پوچھا : اے اللہ کے رسول! میں لوگوں سے کس بات پر جنگ کروں؟ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے جواب دیا : ان سے اس وقت تک جنگ کرو، جب تک اس بات کی گواہی نہ دے دیں کہ اللہ کے علاوہ کوئی برحق معبود نہيں ہے اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے رسول ہیں۔ اگر انھوں نے تمھاری اس دعوت کو قبول کر لیا اور اسلام میں داخل ہوگئے، تو انھوں نے اپنے خون اور اپنے اموال کو تم سے محفوظ کر لیا۔ ہاں، اگر کوئی ایسا جرم کر بیٹھیں کہ اسلام کے احکام کی روشنی میں قتل کے حق دار بن جائيں، تو بات الگ ہے۔ باقی ان کا حساب و کتاب لینا اللہ کا کام ہے۔

فوائد الحديث

صحابہ کرام امارت وسرداری کو نا پسند کرتے تھے، کیوں کہ اس میں بڑی ذمہ داری ہوتی ہے۔

جس معاملہ میں خیر کا پایا جانا مؤکد ہو، اس کی آرزو اور خواہش ظاہر کرنا جائز ہے۔

امام کا لشکر کے قائد کو یہ رہنمائی کرنا کہ جنگ کے میدان میں کیا حکمت عملی اختیار کی جائے۔

رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ آپ کی وصیتوں کی پاسداری کرتے اور انہیں روبہ عمل لانے کے لیے سبقت کرتے تھے۔

جس شخص سے کسی چیز کا مطالبہ کیا جائے اور اسے سمجھ میں نہ آئے، تو اسے پوچھ لینا چاہئے۔

محمد عربی صلی اللہ علیہ و سلم کے نبی ہونے کے بے شمار دلائل میں سے ایک دلیل یہ ہے کہ آپ نے خیبر کے یہودیوں پر فتح یاب ہونے کی بات کہی اور فتح یاب ہوئے بھی۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر فوری عمل کی ترغیب۔

جو شخص دونوں گواہیوں کا اقرار کرے، اسے قتل کرنا جائز نہیں ہے، سوائے اس حال میں کہ اس سے کوئی ایسا عمل سرزد ہو جس سے قتل کرنا لازم آجائے۔

لوگوں کے ظاہری اعمال کے مطابق ہی اسلامی احکام جاری ہوتے ہیں۔ ان کے باطن میں چھپے راز کا مالک اللہ ہے۔

جہاد کا سب سے بڑا مقصد ہے، لوگوں کا مذہب اسلام میں داخل ہونا۔

التصنيفات

صحابہ رضی اللہ عہنہم کی فضیلت