إعدادات العرض
’’شیطان تم میں سے ہر آدمی کے سر کے پیچھے رات میں سوتے وقت تین گرہیں لگا دیتا ہے اور ہر گرہ پر یہ پھونک مارتا ہے کہ سوجا، ابھی رات بہت باقی ہے۔
’’شیطان تم میں سے ہر آدمی کے سر کے پیچھے رات میں سوتے وقت تین گرہیں لگا دیتا ہے اور ہر گرہ پر یہ پھونک مارتا ہے کہ سوجا، ابھی رات بہت باقی ہے۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’شیطان تم میں سے ہر آدمی کے سر کے پیچھے رات میں سوتے وقت تین گرہیں لگا دیتا ہے اور ہر گرہ پر یہ پھونک مارتا ہے کہ سوجا، ابھی رات بہت باقی ہے۔ پھر اگر کوئی بیدار ہو کر اللہ کو یاد کرنے لگے تو ایک گرہ کھُل جاتی ہے۔ پھر اگر وضو کر لے تو ایک اور گرہ کھل جاتی ہے۔ پھر اگر نماز پڑھے تو ایک اور گرہ بھی کھل جاتی ہے۔ اس طرح صبح کے وقت آدمی چاق وچو بند اور خوش مزاج رہتا ہے۔ ورنہ غمگین اور سست رہتا ہے۔"
الترجمة
العربية বাংলা Bosanski English Español فارسی Français Bahasa Indonesia Русский Tagalog Türkçe 中文 हिन्दी ئۇيغۇرچە Hausa Kurdî Kiswahili Português සිංහල Nederlands አማርኛ অসমীয়া Oromoo Tiếng Việt پښتو ગુજરાતી ไทย Română മലയാളം नेपाली Malagasyالشرح
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم بتا رہے ہیں کہ جب انسان تہجد یا فجر کی نماز کے لیے اٹھنا چاہتا ہے، تو کس طرح شيطان اسے روکنے کی کوشش کرتا ہے۔ ایک مومن شخص جب سو جاتا ہے، تو شیطان اس کے سر کے پچھلے حصے میں تین گرہیں لگا دیتا ہے۔ چنانچہ جب وہ جاگ کر اللہ کو یاد کرتا ہے اور شیطان کے وسوسوں کو خلل ڈالنے نہيں دیتا، تو ایک گرہ کھل جاتی ہے۔ اس کے بعد اگر وضو کرتا ہے، تو دوسری گرہ کھل جاتی ہے۔ ۔ پھر اگر اٹھ کر نماز پڑھتا ہے، تو تیسری گرہ بھی کھل جاتی ہے۔ نتیجے کے طور انسان صبح اس حال میں کرتا ہے کہ وه خوش مزاج اور چاق وچوبند رہتا ہے کیوں کہ طاعت کے لئے توفیق الہی ملنے کى وجہ سے وہ مسرور ہوتا ہے ساتھ ہی اللہ نے جو ثواب ومغرفت کا وعدہ کیا ہے اس سے اچھی امید رکھتا ہے اور اس بات پر بھی خوش ہوتا ہے کہ شیطان کے ہتھکنڈے ناکام ہو گئے۔ اس کے برعکس اگر وہ عبادت کے لیے کھڑا نہيں ہوا، تو اس کی صبح بدمزاجی، کبیدگی اور بھلائی و نیکی کے کاموں میں سستی کے ساتھ ہوتی ہے۔ کیوں کہ دراصل وہ شیطانى زنجیر میں قید اور رحمن کی قربت سے دور کر دیا گیا ہوتا ہے۔فوائد الحديث
شیطان کی کوشش ہمیشہ یہ ہوتی ہے کہ اللہ کی عبادت کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کی جائے اور بندہ شیطان کے ہتھکنڈوں سے اسی صورت میں بچ سکتا ہے، جب اللہ عز و جل کی مدد حاصل کرے اور وقایت و تحفظ کے راستوں کو اپنائے۔
اللہ کا ذکر اور اس کی عبادت انسان کے اندر چستی اور نشاط لاتی ہے، اسے قلبی مسرت عطا کرتی ہے، کاہلی اور سستی دور کرتی ہے اور بے چینی اور ناراضگی ختم کرتی ہے۔ کیوں کہ ذکر و عبادت شیطان کو دور بھگاتی ہے اور مذکورہ چيزیں شیطان کے وسوسے کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہیں۔
مومن اللہ تعالیٰ کی جانب سے عبادت کی توفیق ملنے پر خوش اور فضل و کمال کے درجات کے حصول میں پیچھے رہ جانے پر کبیدہ خاطر ہوتا ہے۔
غفلت اور نیکی کے کاموں سے دوری میں شیطان کا ہاتھ ہوتا ہے۔ دراصل وہ ان چیزوں کو انسان کے سامنے خوش نما بناکر پیش کرتا ہے۔
مذکورہ تینوں چیزیں -اللہ کا ذکر، وضو اور نماز- شیطان کو دور بھگانے کا کام کرتی ہیں۔
شیطان کے ذریعے سر کے پچھلے حصے ہی میں گرہیں اس لیے لگائی جاتی ہیں کہ وہی ساری قوتوں کا سرچشمہ ہے اور وہیں سے پورے جسم کا نظام چلتا ہے۔ لہذا اس پر گرہیں لگا دینے کے بعد انسان کی روح پر قابض ہونا اور اس پر نیند طاری کرنا آسان ہو جاتا ہے۔
ابن حجر عسقلانی کہتے ہيں : اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے قول "عليك ليل" میں رات کا ذکر بظاہر یہ بتلاتا ہے کہ یہ بات رات کی نیند کے ساتھ خاص ہے۔
ابن حجر عسقلانی کہتے ہیں: ذکر کے لیے کوئی چيز اس طرح مخصوص نہيں ہے کہ دوسری چيز کافی نہ ہو۔ ہر وہ چيز کافی ہے، جس پر "اللہ کا ذکر" کے الفاظ صادق آتے ہوں۔ اس کے دائرے مں قرآن کی تلاوت، حدیث نبوی پڑھنا اور علم شرعی میں مشغول رہنا بھی آتے ہيں۔ البتہ سب سے اچھا یہ ہے کہ اللہ کا ذکر اس حدیث نبوی میں وارد الفاظ کے ذریعے کیا جائے : "جو شخص رات کو بیدار ہو کر یہ دعا پڑھے : «لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك، وله الحمد، وهو على كل شىء قدير، الحمد لله، وسبحان الله، ولا إله إلا الله، والله أكبر، ولا حول ولا قوة إلا بالله» (اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، بادشاہت اسی کی ہے، تمام تعریفیں بھی اسی کی ہیں اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ تمام تعریفیں اللہ ہی کی ہیں‘ اللہ کی ذات پاک ہے، اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور اللہ سب سے بڑا ہے۔ اللہ کی مدد کے بغیر نہ کسی کو گناہوں سے بچنے کی طاقت ہے نہ نیکی کرنے کی قدرت۔) پھر کہے : اے اللہ! میری مغفرت فرما، یا کوئی دعا کرے، تو اس کی دعا قبول ہوتی ہے۔ پھر اگر وہ وضو کرے (اور نماز پڑھے)، تو نماز بھی مقبول ہوتی ہے)۔ صحیح بخاری۔