إعدادات العرض
تم میں سے ہر شخص کی موت اس حالت میں آنی چاہیے کہ وہ اللہ سے اچھا گمان رکھتا ہو"۔
تم میں سے ہر شخص کی موت اس حالت میں آنی چاہیے کہ وہ اللہ سے اچھا گمان رکھتا ہو"۔
جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہيں کہ میں نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو آپ کی وفات سے تین دن پہلے یہ فرماتے ہوئے سنا: "تم میں سے ہر شخص کی موت اس حالت میں آنی چاہیے کہ وہ اللہ سے اچھا گمان رکھتا ہو"۔
الترجمة
العربية বাংলা Bosanski English Español فارسی Français Bahasa Indonesia Русский Tagalog Türkçe 中文 हिन्दी Tiếng Việt සිංහල Hausa Kurdî Kiswahili Português தமிழ் Nederlands অসমীয়া ગુજરાતી پښتو മലയാളം नेपाली ქართული Magyar తెలుగు Македонски Svenska Moore Română Українська ไทย मराठी ਪੰਜਾਬੀ دری አማርኛ Wolof ភាសាខ្មែរ ಕನ್ನಡ Yorùbá Српски Malagasyالشرح
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کی ترغیب دے رہے ہیں کہ ایک مسلمان کی وفات اللہ سے حسن ظن رکھتے ہوئے ہونی چاہیے۔ موت کے وقت امید کا پہلو غالب رہنا چاہیے اور دل میں یہ بات ہونی چاہیے کہ اللہ اس پر رحم کرے گا اور عفو ودرگزر فرمائے گا۔ کیوں کہ دراصل خوف مطلوب ہے عمل کو بہتر بنانے کے لیے اور وہ وقت عمل کا وقت نہیں ہے۔ لہذا وہاں امید کا پہلو غالب ہونا چاہیے۔فوائد الحديث
امت کی رہنمائی کے تئیں نبیﷺ کی حرص اور ان کے تمام احوال میں نہایت مہربانی وشفقت کا رویہ، حتی کہ اپنے مرض الموت میں امت کو نصیحت کرنا اور نجات کی راہوں کی طرف رہنمائی کرنا۔
طیبی کہتے ہیں: ابھی اپنے اعمال کو بہتر بنا لو، تاکہ تم موت کے وقت اللہ سے اچھا گمان رکھ سکو۔ کیوں کہ جس کا عمل موت سے پہلے برا ہوگا، وہ موت کے وقت اللہ سے اچھا گمان نہيں رکھ سکے گا۔
بندے کے لیے کامل ترین حالت امید اور خوف کے درمیان توازن اور محبت کا غلبہ ہے۔ محبت گاڑی ہے، امید سواری ہے، خوف ڈرائیور ہے اور اللہ اپنے فضل وکرم سے منزل مقصود تک پہنچاتا ہے۔
جب کسی کی موت کا وقت آ جائے، تو اس کے پاس بیٹھے لوگوں کو چاہیے کہ امید کا پہلو غالب رکھے اور اللہ سے حسن ظن کی تلقین کرے۔ کیوں کہ اس حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات اپنی موت سے تین دن پہلے کہی۔
التصنيفات
دل کے اعمال