إعدادات العرض
محمد ﷺ کی بیویوں (ازواجِ مطہرات) کے پاس بہت سی عورتیں اپنے خاوندوں کی شکایت لے کر آئی ہیں۔ یہ لوگ تم میں سے بہتر لوگ نہیں ہیں۔
محمد ﷺ کی بیویوں (ازواجِ مطہرات) کے پاس بہت سی عورتیں اپنے خاوندوں کی شکایت لے کر آئی ہیں۔ یہ لوگ تم میں سے بہتر لوگ نہیں ہیں۔
ایاس بن عبد اللہ بن ابی ذباب - رضی اللہ عنہ - روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ: رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کی باندیوں (یعنی اپنی بیویوں) کو نہ مارو۔ پھر اس حکم کے کچھ دنوں بعد عمر- رضی اللہ عنہ - رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ عورتیں اپنے خاوندوں پر دلیر ہو گئیں ہیں۔ آپ ﷺ نے عورتوں کو مارنے کی اجازت عطا فرما دی۔ اس کے بعد بہت سی عورتیں رسول کریم ﷺ کی ازواج مطہرات کے پاس جمع ہوئیں اور اپنے خاوندوں کی شکایت کیں کہ وہ ان کو مارتے ہیں۔ رسول کریم ﷺ کو جب یہ معلوم ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ محمد ﷺ کی بیویوں کے پاس بہت سی عورتیں اپنے خاوندوں کی شکایت لے کر آئی ہیں۔ ایسے لوگ تم میں سے بہتر لوگ نہیں ہیں۔
[صحیح] [اسے ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام دارمی نے روایت کیا ہے۔]
الترجمة
العربية বাংলা Bosanski English Español فارسی Français Bahasa Indonesia Русский Tagalog Türkçe 中文 हिन्दी Kurdîالشرح
نبی ﷺ نے بیویوں کو مارنے سے منع فرمایا۔ اس پر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا: عورتیں اپنے شوہروں پر دلیر ہو گئی ہیں اور نافرمانی کرنے لگی ہیں۔ اس پر نبی ﷺ نے انہیں ہلکا سا مارنے کی رخصت دے دی بشرطیکہ کہ کوئی وجہ پائی جائے جیسے نافرمانی وغیرہ۔ اگلے دن عورتیں نبی ﷺ کی بیویوں کے پاس آ گئیں اورانہوں نے اپنے شوہروں کی شکایت کی کہ وہ سختی کے ساتھ مارتے ہیں اور رخصت کو غلط انداز میں استعمال کرتے ہیں۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: یہ مرد جو اپنی عورتوں کو تیز مارتے ہیں وہ تم میں سے بہتر لوگ نہیں ہیں۔ اس کی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے مارنے کو نافرمانی کے علاج کے مراحل میں سے آخری مرحلہ قرار دیا ہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا: ﴿وَاللَّاتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ﴾ ”اور جن عورتوں کی نافرمانی اور بددماغی کا تمہیں خوف ہو انہیں نصیحت کرو اور انہیں الگ بستروں پر چھوڑ دو اور انہیں مار کی سزا دو“۔ ان تینوں طریقوں کا ذکر ترتیب بیان کرنے کے لیے ہے نہ کہ اس لیے کہ سب کو ایک ہی وقت میں بروئے کار لایا جائے۔ چنانچہ مرد پہلے سمجھائے بجھائے اور نصیحت کرے اگر اس سے کچھ فائدہ ہو تو الحمد للہ اور اگر یہ سود مند نہ ہو تو پھر اسے اس کے بستر میں تنہا چھوڑ دے (اُس کے ساتھ نہ سوئے)، اگر یہ بات بھی کار گر نہ ہو تو پھر اس کی تادیب کے لیے اسے (دھیرے سے) مارے نہ کہ انتقام لینے کے لیے۔