جس نے کوئی ایسا کتّا رکھا جو نہ تو شکار کی غرض سے ہو اور نہ ہی مال مویشی کی حفاظت کے لیے تو اس کہ وجہ سے اس کے اجر سے روزانہ دو قیراط کی کمی ہو جاتی ہے۔

جس نے کوئی ایسا کتّا رکھا جو نہ تو شکار کی غرض سے ہو اور نہ ہی مال مویشی کی حفاظت کے لیے تو اس کہ وجہ سے اس کے اجر سے روزانہ دو قیراط کی کمی ہو جاتی ہے۔

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ”جس نے کوئی ایسا کتّا رکھا جو نہ تو شکار کی غرض سے ہو اور نہ ہی مال مویشی کی حفاظت کے لیے تو اس کہ وجہ سے اس کے اجر سے روزانہ دو قیراط کی کمی ہو جاتی ہے“۔ سالم کہتے ہیں کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے: ”یا کھیتی کی حفاظت کرنے والا کتّا“۔ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کھیتی باڑی والے آدمی تھے۔

[صحیح] [متفق علیہ]

الشرح

کتے کا شمار گھٹیا اور گندے چوپایوں میں ہوتا ہے اس لیے شریعت مطہرہ نے انھیں رکھنے سے منع فرمایا ہے کیونکہ ایسا کرنے میں بہت سے نقصانات اور خرابیاں ہیں۔ مثلاً جس گھر میں کتا ہو اس سے ملائکہ کرام دور رہتے ہیں، اسی طرح اس سے دوسرے لوگ خوف اور ڈر کھاتے ہیں اور یہ نجاست اور ضرر رسانی کا سبب ہوتا ہے اور اسے رکھنا کم عقلی کی علامت ہے۔ جو شخص کتا پالتا ہے اس کی وجہ سے روزانہ اس کے اجر کا ایک بہت بڑا حصہ کم ہو جاتا ہے۔ سمجھانے کے لیے دو قیراط کہہ دیا گیا ہے، جس کی مقدار اللہ ہی جانتا ہے۔ کیونکہ یہ شخص کتا رکھ کر اور ایسا کرنے پر مصر ہو کر اللہ کی نافرمانی کا مرتکب ہوتا ہے۔ تاہم اگر ضرورت ہو تو تین مقاصد میں سے کسی ایک کے لیے اسے رکھا جا سکتا ہے: اول: بھیڑیے اور چوروں کے اندیشے کے پیش نظر مویشیوں کی حفاظت کے لیے۔ دوم: کھیتی کی حفاظت کے لیے۔ سوم: جب اس کے رکھنے کا مقصد شکارکرنا ہو۔ ان منافع کے لیے کتا رکھنا مباح ہے اور ان کی بنا پر وہ شخص ملامت کا مستحق نہیں ہوتا۔

التصنيفات

شکار