میں ایک ایسا شخص تھا، جسے بہت زیادہ مذی آتی تھی۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سم کے داماد ہونے کے ناتے مجھے شرمندگی محسوس ہو رہی تھی کہ میں آپ سے اس بارے میں پوچھوں۔…

میں ایک ایسا شخص تھا، جسے بہت زیادہ مذی آتی تھی۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سم کے داماد ہونے کے ناتے مجھے شرمندگی محسوس ہو رہی تھی کہ میں آپ سے اس بارے میں پوچھوں۔ چنانچہ میں نے مقداد بن اسود کو پوچھنے کا حکم دیا (اور انھوں نے پوچھا)، تو آپ نے کہا : "وہ اپنا ذکر دھوئے اور وضو کرے۔

علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں ایک ایسا شخص تھا، جسے بہت زیادہ مذی آتی تھی۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سم کے داماد ہونے کے ناتے مجھے شرمندگی محسوس ہو رہی تھی کہ میں آپ سے اس بارے میں پوچھوں۔ چنانچہ میں نے مقداد بن اسود کو پوچھنے کا حکم دیا (اور انھوں نے پوچھا)، تو آپ نے کہا : "وہ اپنا ذکر دھوئے اور وضو کرے۔" صحیح بخاری میں ہے: آپ نے کہا : "وضو کرو اور اپنی شرمگاہ کو دھو لو۔"

[صحیح] [متفق علیہ]

الشرح

علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہيں کہ ان کو اکثر مذی نکل جایا کرتی تھی۔ دراصل مذی ایک طرح کا پتلا، چپچپا، سفید پانی ہے، جو شہوت کے وقت یا جماع سے پہلے شرمگاہ سے نکلتا ہے۔ ان کو پتہ بھی نہیں تھا کہ مذی نکلنے کے بعد کیا کرنا چاہیے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھنے میں بھی حیا رکاوٹ بن رہی تھی، کیوں کہ آپ کی بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا ان کے نکاح میں تھیں۔ لہذا مقداد رضی اللہ عنہ سے کہا کہ وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے اس کے بارے میں پوچھیں۔ چنانچہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے جواب دیا کہ وہ پہلے اپنی شرمگاہ کو دھو لیں اور اس کے بعد وضو کر لیں۔

فوائد الحديث

علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت کہ حیا کو انھوں نے رکاوٹ بننے نہيں دیا اور آپ سے بالواسطہ مسئلہ پوچھ لیا۔

فتوى پوچھنے میں کسی کو نمائندہ بنانے کا جواز۔

کسی مصلحت کی بنا پر انسان وہ باتیں بتا سکتا ہے، جن کو بتانے سے حیا رکاوٹ بنتی ہے۔

مذی ناپاک ہے اور کپڑے اور بدن سے اسے دھونا واجب ہے۔

مذی نکلنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔

شرمگاہ کے ساتھ ساتھ دونوں خصیوں کو بھی دھونا ضروری ہے، کیوں کہ ایک دوسری حدیث میں اس کا ذکر آیا ہے۔

التصنيفات

نجاستوں کا ازالہ