میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق کام کرتا ہوں اور ميں اس کے ساتھ ہوتا ہوں جب بھی وہ مجھے یاد کرتا ہے۔

میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق کام کرتا ہوں اور ميں اس کے ساتھ ہوتا ہوں جب بھی وہ مجھے یاد کرتا ہے۔

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ”اللہ عزوجل فرماتا ہے: میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق کام کرتا ہوں اور ميں اس کے ساتھ ہوتا ہوں جب بھی وہ مجھے یاد کرتا ہے۔ اگر وہ اپنے جی میں مجھے یاد کرتا ہے تو میں بھی اسے اپنے جی میں یاد کرتا ہوں اور اگر وہ کسی مجلس میں میرا ذکر کرتا ہے تو میں ایسی مجلس میں اس کا ذکر کرتا ہوں جو اس سے بہتر ہوتی ہے۔ جو ایک بالشت میرے قریب آتا ہے میں ایک ہاتھ اُس کے قریب آتا ہوں، جو ایک ہاتھ میرے قریب آتا ہے میں دو ہاتھ اُس کے قریب آتا ہوں، اور جب وہ ميری طرف چلتا ہوا آتا ہے میں اس کی طرف دوڑتا ہوا آتا ہوں“۔

[صحیح] [متفق علیہ]

الشرح

اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بتایا کہ اللہ تعالی حدیث قدسی میں فرماتا ہے: میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق کام کرتا ہوں۔ اس کے ساتھ میرا برتاؤ ویسا ہی رہتا ہے، جیسا وہ میرے بارے میں سوچتا ہے۔ اچھا تو اچھا اور برا تو برا۔ جب وہ مجھے یاد کرتا ہے، تو میری رحمت، توفیق، تائید، ہدایت اور دیکھ اس کے ساتھ رہتی ہے۔ اگر وہ تنہائی میں میری تسبیح و تہلیل وغیرہ کرتا ہے اور اس طرح مجھے یاد کرتا ہے، تو میں اسے تنہائی میں یاد کرتا ہوں۔ اگر وہ مجھ کو جماعت کے درمیان یاد کرتا ہے، تو میں اسے کہیں بڑی اور مقدس جماعت کے درمیان یاد کرتا ہوں۔ جو اللہ کی جانب ایک بالشت کے برابر بڑھتا ہے، اللہ اس کی جانب ایک ہاتھ بڑھتا ہے۔ جو اللہ کی جانب ایک ہاتھ بڑھتا ہے، اللہ اس کی جانب دو ہاتھ بڑھتا ہے۔ جو اللہ کی جانب چل کر آتا ہے، اللہ اس کی جانب دوڑ کر جاتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ جب بندہ اپنے رب کی جانب اس کی اطاعت گزاری اور بندگی کے ساتھ آگے بڑھتا ہے، تو اللہ تعالی اسے اپنے سے اور قریب کر لیتا ہے۔ بندگی کی بندگی جتنی مکمل ہوگی، اللہ اس سے اتنا ہی قریب ہوگا۔ اللہ کی نوازش اور اس کا ثواب بندے کے عمل اور کد و کاوش سے کہیں بڑھ کر ہے۔ ایک مومن کی شان یہ ہے کہ وہ اللہ سے اچھا گمان رکھے، سرگرم عمل رہے اور اس کا یہ جذبۂ عمل اللہ سے ملنے تک فزوں تر ہوتا چلا جائے۔

فوائد الحديث

یہ حدیث ان حدیثوں میں سے ایک ہے، جن کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے رب سے روایت کیا ہے۔ اس طرح کی حدیث کو حدیث قدسی یا حدیث الہی کہا جاتا ہے۔ اس سے مراد وہ حدیث ہے، جس کے لفظ اور معنی دونوں اللہ کے ہوں۔ البتہ اس کے اندر قرآن کی امتیازی خصوصیات، جیسے اس کی تلاوت کا عبادت ہونا، اس کے لیے طہارت حاصل کرنا اور اس کے ذریعہ تحدی وچیلینج دیا جانا اوراس کا معجزہ ہونا وغیرہ نہیں پائی جاتیں۔

آجری کہتے ہيں : "اہل حق اللہ کے عز و جل کے وہی اوصاف بیان جو خود اللہ تبارک و تعالی نے بیان کیے ہیں، اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے بیان کیے ہیں اور صحابہ رضی اللہ عنہم نے بیان کیے ہیں۔ یہی اتباع سنت کے علم بردار اور بدعت سے گریزاں رہنے والے علما کا مسلک ہے۔" اہل سنت اللہ تبارک و تعالی کے انھیں اسما و صفات کو ثابت کرتے ہیں جنھیں جنھیں خود اللہ نے اپنے لیے ثابت کیا ہے۔ وہ بھی تحریف، تعطلیل، تکییف اور تمثیل سے دامن بچاتے ہوئے۔ اللہ کی ذات سے ان اسما و صفات کی نفی کرتے ہیں، جن کی نفی اس نے خود کی ہے اور جن اسما و صفات کے بارے میں نفی و اثبات کچھ نہ وارد ہو، ان کے بارے میں خاموش رہتے ہيں۔ اللہ تعالی نے کہا ہے : "اس کے جیسی کوئی چیز نہیں اور وہ سب کچھ سننے والا، سب کچھ دیکھنے والا ہے"۔

اللہ کے بارے میں اچھا گمان رکھنے کے ساتھ ساتھ عمل کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ حسن بصری کہتے ہيں : ایک مومن اپنے رب سے حسن ظن رکھتا ہے اور اچھا عمل کرتا ہے، جب کہ ایک فاجر اپنے رب سے بدظن رہتا ہے اور برا عمل کرتا ہے۔

قرطبی کہتے ہیں : کچھ لوگ کہتے ہیں : "میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق کام کرتا ہوں" سے مراد دعا کے وقت نوازش کا گمان، توبہ کے وقت قبولیت کا گمان، مغفرت طلب کرتے وقت بخشش کا گمان اور شروط کو دھیان میں رکھتے ہوئے عبادت کرتے وقت اجر و ثواب کا وعدہ ہے۔ اس لیے بندے کو اپنی ذمے داریاں پورے تن من سے اس یقین کے ساتھ ادا کرنی چاہیے کہ اللہ قبول کرے گا اور بخشش عطا کرے گا۔ کیوں کہ یہ اس کا وعدہ ہے اور اس کا وعدہ ٹوٹتا نہيں ہے۔ اس کے برخلاف اگر کسی کو یقین ہو یا اسے لگتا ہو کہ اللہ اس کی عبادت قبول نہیں کرے گا یا اس کا اسے کوئی فائدہ نہيں ہوگا تو یہ اللہ کی رحمت سے مایوسی ہے اور یہ کبیرہ گناہ ہے۔ اس کے ساتھ مرنے والے انسان کے ساتھ اس کے ظن کے مطابق ہی برتاؤ کیا جائے گا، جیسا کہ اس حدیث کے بعض طرق میں آیا ہے : "لہذا میرا بندہ میرے بارے میں جو گمان چاہے رکھے۔" وہ کہتے ہیں : جہاں بہ اصرار مغفرت کا گمان رکھنے کی بات ہے، تو یہ محض جہالت اور دھوکہ ہے۔

زبان اور دل دونوں سے زیادہ سے زیادہ اللہ کا ذکر کرنے کی ترغیب۔ انسان کے دل میں اللہ کا خوف جاگزیں ہو، اس کی عظمت اور حق کے احساس کا نقش نمایاں رہے، اس سے امید وابستہ رہے، محبت رہے، حسن ظن رہے، خالص اسی کے لیے عمل کرنے کا جذبہ موج زن رہے اور زبان پر سبحان اللہ، الحمد للہ، لا الہ الا اللہ، اللہ اکبر اور لا حول ولا قوۃ الا باللہ کا ورد جاری ہے۔

ان بو جمرہ کہتے ہيں : جو خوف کے عالم میں اللہ کو یاد کرے گا، اسے امن و سکون ملے گا اور جو وحشت کے عالم میں اسے یاد کرے گا، اسے انسیت ملے گی۔

شبر : اسے اردو میں بالشت کہتے ہیں۔ اسے مراد ہے ہتھیلی کو پھیلا دینے کے بعد خنصر کے کنارے سے انگوٹھے کے کنارے تک کی دوری۔

ذراع : درمیان انگلی کے کنارے سے کہنی کی ہڈی تک کی مسافت۔

باع : دونوں ہاتھوں، بازووں اور سینے کی چوڑائی کی مسافت۔ سب ملاکر کل چار ہاتھ ہوا کرتے ہيں۔

التصنيفات

توحيدِ اسماء وصفات, ذکر اللہ کے فوائد