جس نے اپنے بھائی کی عزت یا کسی اور شے میں حق تلفی کی ہو، اسے چاہیے کہ وہ آج ہی اس سے بری الذمہ ہو جائے، اس سے پہلے کہ (وہ دن آئے) جب نہ دینار ہو ں گے اور نہ درہم۔

جس نے اپنے بھائی کی عزت یا کسی اور شے میں حق تلفی کی ہو، اسے چاہیے کہ وہ آج ہی اس سے بری الذمہ ہو جائے، اس سے پہلے کہ (وہ دن آئے) جب نہ دینار ہو ں گے اور نہ درہم۔

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس نے اپنے بھائی کی عزت یا کسی اور شے میں حق تلفی کر رکھی ہو، تو اسے چاہیے کہ وہ آج ہی اس سے بری الذمہ ہو جائے، اس سے پہلے کہ (وہ دن آئے) جب نہ دینار ہوں اور نہ درہم۔ اگر اس کی کچھ نیکیاں ہوں گی تو جتنی اس نے حق تلفی کی ہو گی، اس قدر اس کی نیکیاں لے لی جائیں گی اور اگر اس کی نیکیاں نہیں ہوں گی، تو اس کے بھائی کی برائیوں کو لے کر اس کے کھاتے میں ڈال دیا جائےگا“۔

[صحیح] [اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]

الشرح

یہ حدیث عدلِ اجتماعی کے ان مظاہر میں سے ایک مظہر کی تصویر کشی کرتی ہے، جنھیں اسلام اپنے ماننے والوں کے مابین عام کرنا چاہتا ہے۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مَنْ كَانَتْ عِندَهُ مَظْلَمَةٌ“: یعنی وہ شے جسے ظالم نے (ناحق) چھین لیا ہو یا پھر وہ اس کے درپے ہو۔ آپ ﷺ کا فرمان: ”اپنے بھائی کی“ یعنی اپنے دینی بھائی کی۔ اس جرم میں متعدد امور شامل ہیں: ”اس کی عزت“ یہ حق تلفی کی وضاحت ہے۔ اس سے مراد انسانی شخصیت کے وہ پہلو ہیں، جن کی حفاظت وہ کرتا ہے اوران کی ہتک کو برداشت نہیں کرتا، جیسےاس کی جان اور حسب و نسب۔ ”یا کوئی اور شے“ یعنی کوئی اور چیز ہو، جیسے اس کا مال چھیننا یا پھر اسے اس سے نفع اٹھانے سے روکنا یا پھر یہ تخصیص کے بعد تعمیم ہے۔ (یعنی پہلے خاص عزت کا ذکر کیا اور پھر 'یا کسی اور شے میں حق تلفی' کہہ کراس کے متعلق ہر شے کو شمار کر دیا)۔ تو اس کے لیے ضروری ہے کہ ”وہ اس سے بری الذمہ ہو جائے“ یعنی ظالم مظلوم سے درخواست کرے کہ وہ اسے بری الذمہ کر دے۔”منه“ یعنی مظلوم سے۔ ”آج ہی“ کے الفاظ میں جلدی کرنے کی تاکید ہے۔ اس سے مراد دنیوی زندگی کے ایام ہیں؛ کیوںکہ اس کے مقابلے میں فرمایا: ”اس سے پہلے کہ وہ دن آئے جس میں نہ دینار ہوں گےاور نہ درہم“ اس سے مراد قیامت کا دن ہے اور اس پیرائے میں تنبیہ ہے کہ اس شخص پر اس سے بری الذمہ ہونا واجب ہے، اگرچہ اس حق تلفی کو زائل کرنے میں اسے درہم و دینارہی خرچ کرنے پڑیں؛ کیوں کہ بری الذمہ ہونے کے کے لیے اگر آج (دنیا میں) درہم و دینار کا لیا جانا اس سے آسان ہے کہ بری الذمہ نہ ہونے کی صورت میں نیکیاں لے لی جائیں یا پھر برائیاں (اس پر) ڈال دی جائیں، جیسا کہ آپ ﷺ نے یہ فرما کر اشارہ کیا کہ: ”اگر اس کی کچھ نیکیاں ہوں گی“ بایں طور کہ وہ ایسا ظالم مومن ہو، جسے مظلوم کی طرف سے معاف نہ کیا گیا ہو، تو اس کے نتیجے میں اس کے نیک اعمال لے لیے جائیں گے۔ ”اس سے“ یعنی اس شخص کی نیکیاں جس نے دوسرے پر ظلم کیا (لے کر مظلوم کو دے دی جائیں گی) اور اس طرح سے انھیں لے کر بدلہ چکایا دیاجائے گا۔ ”اس کی حق تلفی کے بقدر“ طاعت و معصیت کی مقدار اور کیفیت کو کیسے جانا جائے گا؟، اس کا علم اللہ سبحانہ و تعالی کے پاس ہے۔ اگر زیادتی کا مرتکب ہونے والا شخص قیامت کے دن نیکیوں سے تہی دامن ہوا، تو اس کے بارے میں آپ ﷺ نے فرمایا: ”اگر اس کی نیکیاں نہ ہوئیں“ یعنی اس کی نیکیاں باقی نہ بچیں یا پھر کوئی نیکی ہوئی ہی نہ، تو اللہ اسے ایسے طریقے سے عذاب دے گا جس سے اس کے بوجھ میں مزید اضافہ ہو جائے گا اور اس کا عذاب بڑھ جائے گا۔ مظلوم سے اس کی برائیاں لے کر ظالم کے کھاتے میں ڈال دی جائیں گی۔

التصنيفات

اخروی زندگی