إعدادات العرض
اے عورتوں کی جماعت! صدقہ کیا کرو، کیوں کہ مجھے جہنم کے اندر تمھاری تعداد سب سے زیادہ دیکھائی گئى ہے"۔ انہوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ایسا کیوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: "تم…
اے عورتوں کی جماعت! صدقہ کیا کرو، کیوں کہ مجھے جہنم کے اندر تمھاری تعداد سب سے زیادہ دیکھائی گئى ہے"۔ انہوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ایسا کیوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: "تم لعن طعن زیادہ کرتی ہو اور شوہر کی ناشکری کرتی ہو۔ میں نے عقل اور دین میں ناقص ہونے کے باوجود تم (عورتوں) سے زیادہ کسی کو بھی ایک عقل مند اور تجربہ کار آدمی کے عقل کو ماؤف کردینے والا نہیں دیکھا"۔
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہيں: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم عید الاضحی یا عید الفطر کے دن عید گاہ کی جانب نکلے اور اس دوران عورتوں کے پاس سے گزرے تو فرمایا: "اے عورتوں کی جماعت! صدقہ کیا کرو، کیوں کہ مجھے جہنم کے اندر تمھاری تعداد سب سے زیادہ دیکھائی گئى ہے"۔ انہوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ایسا کیوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: "تم لعن طعن زیادہ کرتی ہو اور شوہر کی ناشکری کرتی ہو۔ میں نے عقل اور دین میں ناقص ہونے کے باوجود تم (عورتوں) سے زیادہ کسی کو بھی ایک عقل مند اور تجربہ کار آدمی کے عقل کو ماؤف کردینے والا نہیں دیکھا"۔ عورتوں نے عرض کيا: اے اللہ کے رسول! ہمارے دین اور ہماری عقل کی کمی کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: "کیا عورت کی گواہی مرد کی آدھی گواہی کے برابر نھیں ہے؟" انہوں نے کہا: جی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "یہی اس کی عقل کی کمی ہے۔ کیا ایسا نہیں ہے کہ جب عورت حائضہ ہوتی ہے تو نہ نماز پڑھ سکتی ہے نہ روزہ رکھ سکتی ہے؟" عورتوں نے کہا: جی ایسا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "یہی اس کے دین کی کمی ہے"۔
الترجمة
العربية বাংলা Bosanski English Español فارسی Français Bahasa Indonesia Русский Tagalog Türkçe 中文 हिन्दी Hausa Kurdî Português සිංහල Nederlands Tiếng Việt অসমীয়া ગુજરાતી Kiswahili پښتو മലയാളം नेपाली Magyar ქართული తెలుగు Македонски Svenska Moore Română Українська ไทย मराठी ਪੰਜਾਬੀ دری አማርኛ Wolof ភាសាខ្មែរ ಕನ್ನಡالشرح
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم عید کے دن مصلی کی جانب نکلے۔ چوں کہ آپ نے عورتوں سے وعدہ کر رکھا تھا کہ انھیں الگ سے دین کی باتیں بتائيں گے، اس لیے اس دن وعدہ پورا کر دیا۔ اس درمیان آپ نے کہا : اے عورتو! تم صدقہ کیا کرو اور زیادہ سے زیادہ مغفرت طلب کیا کرو کہ یہ دونوں گناہوں کو مٹائے جانے کے دو عظیم ترین اسباب ہیں۔ کیوں کہ میں نے اسرا کی رات جہنم کے اندر تمھاری تعداد زیادہ دیکھی ہے۔ اتنا سننے کے بعد وہاں موجود ایک عقل و خرد کی مالک عورت نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول! جہنم کے اندر ہماری تعداد زیادہ ہونے کی وجہ کیا ہے؟ آپ نے جواب دیا : اس کی کئی وجوہات ہیں : تم بہ کثرت لعن طعن اور گالی گلوج کرتی ہو اور شوہر کے حق کا انکار کرتی ہو۔ پھر آپ نے ان کا وصف بیان کرتے ہوئے فرمایا : میں عقل اور دین میں ناقص ہونے کے باوجود تم (عورتوں) سے زیادہ کسی کو بھی ایک عقل مند، دور اندیش اور ضبط کے مالک شخص کی عقل کو ماؤف کر دینے والا نہيں دیکھا۔ اس عورت نے عرض کیا : ہماری عقل اور ہمارے دین کی کمی کہاں سے عیاں ہوتی ہے؟ آپ نے کہا : جہاں تک عقل کی کمی کی بات ہے، تو دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر ہے۔ یہ عقل کی کمی ہوئی۔ جب کہ دین کی کمی اس طور پر سامنے آتی ہے کہ اس کے اعمال صالحہ نسبتا کم ہوتے ہیں۔ وہ اس طرح کہ حیض کی وجہ سے وہ کئی دنوں تک نماز نہیں ہوتی اور رمضان میں اس کے کئی روزے چھوٹ جاتے ہیں۔ لیکن یہاں یہ یاد رہے کہ حیض کی وجہ سے نماز اور روزہ چھوڑنے کی بنا پر عورت کو برا بھلا نہیں کہا جائے گا اور اس کی پکڑ بھی نہیں ہوگی۔ کیوں کہ یہ فطری چیز ہے۔ بالکل ویسے ہی، جیسے انسان فطری طور پر محب مال، جلد باز اور جاہل ہوا کرتا ہے۔فوائد الحديث
عورتوں کا عید کی نماز کے لیے نکلنے اور ان کے لیے الگ سے وعظ سے بندوبست کرنا مستحب ہے۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ شوہر کی نافرمانی اور کثرت سے لعنت کرنا گناہ کبیرہ ہے؛ کیوں کہ جہنم کی دھمکی اس بات کی علامت ہے کہ یہ گناہ کبیرہ ہے۔
اس حدیث میں ایمان کے بڑھنے اور گھٹنے کا بیان ہے۔ لہذا جس نے اپنی عبادت کو بڑھایا اس کے ایمان اور دین میں اضافہ ہوا اور جس نے اپنی عبادت میں کمی کی اس کے دین میں کمی آئی۔
نووی کہتے ہیں : عقل میں کمی بیشی ہو سکتی ہے۔ اسی طرح ایمان میں بھی کمی بیشی ہو سکتی ہے۔ واضح رہے کہ عورتوں کے اندر موجود کمی کو بیان کرنے کا مقصد اس پر ان کی ملامت کرنا نہیں ہے۔ کیوں کہ یہ کمی ان کے اندر فطری طور پر موجود ہے۔ یہاں اسے بیان کرنے کا مقصد ان کے فتنے میں پڑنے سے آگاہ کرنا ہے۔ یہی وجہ سے عذاب کی بات شوہر کی ناشکری پر کہی گئی ہے، ان کے اندر موجود کمی پر نہيں۔ دین کی کمی کا انحصار انھیں باتوں پر نہيں ہے، جن سے گناہ ہوتا ہے، بلکہ اس کا دائرہ اس سے کہيں زیادہ وسیع ہے۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر بات کا مطلب واضح نہ ہوتا ہو تو متعلم عالم سے اور تابع متبوع سے وضاحت طلب کر سکتا ہے۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت کی گواہی مرد کے مقابلے میں آدھی ہے، کیوں کہ اس کے اندر ضبط وحافظہ کی کمی پائی جاتی ہے۔
ابن حجر عسقلانی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے الفاظ "مَا رَأَيْتُ مِنْ نَاقِصَاتِ عَقْلٍ وَدِينٍ أَذْهَبَ لِلُبِّ الرَّجُلِ الحَازِمِ مِنْ إِحْدَاكُنَّ" کے بارے میں لکھتے ہیں : مجھے لگتا ہے جہنم کے اندر عورتوں کی اکثریت ہونے کا ایک سبب یہ بھی ہے۔ کیوں کہ جب یہ عقل مند انسان کی عقل کو ماؤف کر دینے کا سبب ہیں، جس کے نتیجے میں وہ نامناسب بات یا نامناسب کام کر تے ہيں، تو گویا کہ اس گناہ میں وہ بھی شریک ہوئیں۔
عورت لیے حیض کے ایام میں نماز پڑھنا اور روزہ رکھنا حرام ہے۔ یہی حال نفاس والی عورت کا بھی ہے۔ دونوں پاک ہو جانے کے بعد روزے کی قضا کریں گی، نماز کی نہیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حسن اخلاق کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بغیر کسی پھٹکاروملامت کے خواتین کے سوالوں کے جواب مرحمت فرمادیے۔
ابن حجر کہتے ہيں : صدقہ عذاب کو دور کرتا ہے۔ وہ کبھی کبھی مخلوقوں کے درمیان ہونے والے گناہ کو بھی مٹا دیتا ہے۔
نووی کہتے ہيں : عورتوں کا دینی نقص حیض کے دنوں میں ان کے نماز اور روزہ چھوڑنے کی وجہ سے ہے۔ کیوں کہ جس کی عبادت زیادہ ہوتی ہے، اس کا دین اور ایمان بڑھ جاتا ہے۔ اس کے برخلاف جس کی عبادت کم ہوتی ہے، اس کے دین میں کمی آ جاتی ہے۔ پھر دینی نقص کبھی گناہ کا سبب بن جاتا ہے۔ جیسے نماز اور روزہ جیسی واجب عبادتوں کو بلاعذر چھوڑ دینا۔ کبھی گناہ کا سبب نہیں بھی بنتا۔ جیسے ایسے شخص کا جمعہ اور جہاد چھوڑنا، جس پر دونوں واجب نہ ہوں۔۔ جب کہ کبھی کبھی انسان اس کا مکلف ہوتا ہے۔ جیسے حائضہ عورت کا نماز اور روزہ چھوڑنا۔