إعدادات العرض
اذان سننے کے بعد جو شخص یہ کہے: ”اللَّهُم ربِّ هذه الدَّعْوَة التَّامة، والصَّلاة القَائمة، آتِ محمدا الوَسِيلَة والفَضِيلة، وابْعَثْه مَقَامًا محمودًا الَّذي…
اذان سننے کے بعد جو شخص یہ کہے: ”اللَّهُم ربِّ هذه الدَّعْوَة التَّامة، والصَّلاة القَائمة، آتِ محمدا الوَسِيلَة والفَضِيلة، وابْعَثْه مَقَامًا محمودًا الَّذي وعَدْتَه“ تو قیامت والے دن اس کے لیے میری شفاعت حلال ہو جائے گی۔
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو شخص اذان سننے کے بعد یہ دعا کرے: ”اللَّهُم ربِّ هذه الدَّعْوَة التَّامة، والصَّلاة القَائمة، آتِ محمدا الوَسِيلَة والفَضِيلة، وابْعَثْه مَقَامًا محمودًا الَّذي وعَدْتَه“ (اے اللہ ! اس دعوتِ تامّہ کے رب اور کھڑی ہونے والی نماز کے رب! محمد (ﷺ) کو وسیلہ اور فضیلت عطا فرما اور انہیں مقام محمود پر کھڑا کر، جس کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے) توقیامت کے دن اس کے لیے میری شفاعت حلال ہو جائے گی۔
[صحیح] [اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
الترجمة
العربية বাংলা Bosanski English Español فارسی Français Bahasa Indonesia Русский Tagalog Türkçe 中文 हिन्दी ئۇيغۇرچە Hausa Kurdî Português Nederlands Tiếng Việt অসমীয়া ગુજરાતી Kiswahili አማርኛ پښتو සිංහල ไทย Azərbaycanالشرح
حدیث کا مفہوم: نبی کریم ﷺ فرما رہے ہیں کہ جو شخص اذان سننے کے بعد یعنی جو شخص مؤذن کے اذان سے فراغت اور اختتام کے بعد یہ مسنون دعا پڑھے؛ جیسا کہ مسلم نے عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ انھوں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا :”جب تم مؤذن کو (اذان دیتے ہوئے) سنو، تو ویسے ہی کہو، جیسے وہ کہتا ہے۔ پھر مجھ پر درود بھیجو، پھر میرے لیے اللہ سے وسیلہ مانگو“۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دعا مؤذن کے جواب سے فارغ ہونے کے بعد کی جائے گی۔ ”کامل پکار“ یعنی اذان۔ اس کا نام 'دعوت' رکھا گیا ہے؛ کیوں کہ اس کے ذریعے لوگوں کو نماز کی طرف دعوت دی جاتی ہے۔ تامہ یعنی کامل۔ کیوں کہ یہ ایمان کے عقائد؛ ایمان اور رسالت محمدیہ کی تصدیق پر مشتمل ہے۔ اس کے شروع میں تکبیر، اس کے بعد شہادتین جو اسلام کا پہلا رکن ہیں، پھر نماز کی دعوت اور آخر میں تکبیر ہے۔ ”قائم ہونے والی نماز“ اس کے دو معنی ہیں: 1- وہ نماز جو کھڑی ہونے والی ہے۔ 2- ایسی نماز جسے اب کوئی دین بدل نہیں سکتا اور نہ ہی اس میں نسخ کی گنجائش ہے، جب تک زمین و آسمان ہیں، تب تک قائم رہنے والی ہے۔ وسیلہ اسے کہتے ہیں جس کے ذریعے کسی کا قرب حاصل کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کا قرب بندہ جس چیز سے حاصل کرسکتا ہے، وہ عمل صالح ہے۔ البتہ یہاں اس سے مراد جنت میں بلند مرتبہ و درجہ ہے، جیسا کہ صحیح مسلم کے اندر عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کی روایت میں اس کی صراحت موجود ہے۔ اس میں ہے کہ ”جب تم مؤذن کی آواز سنو تو ویسے ہی کہو...پھر میرے لیے اللہ تعالیٰ سے وسیلہ کا سوال کرو؛ کیوں کہ یہ جنت میں ایک درجہ ہے، جو اللہ کے بندوں میں سے کسی ایک بندے کے لیے ہے اور مجھے امید ہے کہ وہ میں ہوں“۔ ”مقام فضیلت“ یہ ساری مخلوق سے فزوں تر ایک مرتبہ ہے۔ اس کے معنی ہیں، محمد ﷺ کو تمام مخلوقات پر فضیلت عطا فرما! ”ان کو مقام محمود پر پہنچا“ یعنی قیامت کے دن جب سارے لوگ قبروں سے اٹھائے جائیں گے، تو یہ وہ مقام ہو گا جس کی تعریف کی جائے گی۔ مقام محمود: یعنی وہ سارے اعزازات، جو تعریف کے مستحق ہوں۔ یہاں اس سے مراد وہ شفاعت عظمیٰ ہے، جو آپﷺ (روز قیامت) فیصلے کے لیے کریں گے اور اس پر سارے پہلے اور بعد والے لوگ آپ کی تعریف کریں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قیامت کے روز جب محشر کی ہولناکیاں دراز تر ہوتی چلی جائیں گی اور لوگوں کے لیے کھڑے ہونا مشکل ہو جائے گا، تو وہ آدم علیہ السلام کے پاس آئیں گے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے سفارش کریں؛ تاکہ ان کو اس مشکل سے خلاصی مل جائے۔ لیکن آدم علیہ السلام معذرت کر لیں گے۔ پھر لوگ نوح علیہ السلام کے پاس آئیں گے، لیکن وہ بھی معذرت کر لیں گے۔ یوں سب باری باری ابراہیم، موسیٰ اور عیسیٰ علیھم الصلاۃ و التسلیم کے پاس آئیں گے۔ آخر میں لوگ محمد ﷺ کے پاس آئیں گے اور آپ ﷺ فرمائیں گے کہ میں ضرور کروں گا۔ چنانچہ آپﷺ سجدہ میں گر پڑيں گے اور آپ کو حمد کے کلمات الہام کیے جائیں گے۔ پھر آپ ﷺ سے کہا جائے گا: اپنا سر اٹھائیے، سوال کیجیے، آپ کو عطا کیا جائے گا۔ چنانچہ آپﷺ سفارش کریں گے اور ہمارے نبی محمد ﷺ کی سفارش کے ذریعے وہ پریشانیوں سے نجات پا جائيں گے۔ ”جس کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے“ یعنی شفاعت عظمیٰ کا وعدہ، جب اللہ تعالیٰ مخلوقات کے مابین فیصلہ فرمائیں گے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَكَ عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا﴾ ”رات کے کچھ حصے میں تہجد کی نماز میں قرآن کی تلاوت کریں یہ زیادتی آپ کے لیے ہے، عن قریب آپ کا رب آپ کو مقام محمود میں کھڑا کرے گا“۔ (الإسراء: 79) لفظ ”عَسَى“ جب قرآن میں آئے، تو وجوب (یقین) کا معنی دیتا ہے۔ ”اس کے لیے میری شفاعت حلال ہو جائے گی“ یعنی اس کے لیے نبی کریم ﷺ کی سفارش ثابت اور واجب ہو جاۓ گی۔ وہ سفارش کا حق دار اس دعا کی بدولت ہو گا۔ اور قیامت کے دن اس سے فیض یاب ہوگا۔ نبی کریم ﷺ اس کے حق میں بغیر حساب کے جنت کے داخلے کی، بلندی درجات کی یا پھر آگ سے نجات کی سفارش کریں گے۔ ”یوم القیامۃ“ یہ نام اس لیے رکھا گیا ہے، کیوں کہ اس دن بڑے بڑے معاملات انجام پذیر ہوں گے؛ ساری مخلوق اپنی قبروں سے نکل کر وہاں کھڑی ہو گی، بندوں کے خلاف گواہیوں کا دور شروع ہوگا اور لوگ اپنے حق میں فیصلہ سننے کے لیے کھڑے ہوں گے۔ وغیرہ وغیرہ۔