جس نے اذان سنتے وقت یہ دعا پڑھی: "اللَّهُم ربِّ هذه الدَّعْوَة التَّامة، والصَّلاة القَائمة، آتِ محمدا الوَسِيلَة والفَضِيلة، وابْعَثْه مَقَامًا محمودًا الَّذي…

جس نے اذان سنتے وقت یہ دعا پڑھی: "اللَّهُم ربِّ هذه الدَّعْوَة التَّامة، والصَّلاة القَائمة، آتِ محمدا الوَسِيلَة والفَضِيلة، وابْعَثْه مَقَامًا محمودًا الَّذي وعَدْتَه" (اے اللہ! اس کامل دعوت اور قائم ہونے والی نماز کے رب! محمدﷺ کو قرب اور فضیلت عطا فرما اور انہیں مقام محمود پر کھڑا کر جس کا تو نے وعدہ کیا ہے)۔ اس کے لیے قیامت کے دن میری شفاعت واجب ہو جائے گی۔

جابر بن عبد الله رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: "جس نے اذان سنتے وقت یہ دعا پڑھی: "اللَّهُم ربِّ هذه الدَّعْوَة التَّامة، والصَّلاة القَائمة، آتِ محمدا الوَسِيلَة والفَضِيلة، وابْعَثْه مَقَامًا محمودًا الَّذي وعَدْتَه" (اے اللہ! اس کامل دعوت اور قائم ہونے والی نماز کے رب! محمدﷺ کو قرب اور فضیلت عطا فرما اور انہیں مقام محمود پر کھڑا کر جس کا تو نے وعدہ کیا ہے)۔ اس کے لیے قیامت کے دن میری شفاعت واجب ہو جائے گی۔"

[صحیح] [اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]

الشرح

اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم بیان فرما رہےہیں کہ جس نے مؤذن کی اذان سننے کے بعد یہ دعا پڑھی : (اللَّهُمَّ رَبَّ هَذِهِ الدَّعْوَةِ التَّامَّةِ) اے اللہ! اس کامل دعوت، دعوت توحید و رسالت، یعنی اذان کے ان الفاظ، جن کے ذریعے اللہ کی عبادت اور نماز کی جانب بلایا جاتا ہے اور کھڑی ہونے والی نماز، جو ہمیشہ پڑھی جاتی رہے گی، کے رب! "آتِ مُحَمَّدًا الوَسِيلَةَ وَالفَضِيلَةَ" محمدﷺ کو جنت کا وہ اونچا مقام، جو آپ کے علاوہ اور کسی کو زیب نہیں دیتا اور ديگر مخلوقات کے مراتب سے زائد مرتبہ عطا فرما۔ "وَابْعَثْهُ مَقَامًا مَحْمُودًا الَّذِي وَعَدْتَهُ" اور انہیں مقام محمود عطا کر، جس کا تو نے ان سے یہ فرما کر وعدہ کیا ہے : "عسى أن يبعثك ربك مقامًا محمودًا"۔ جس نے یہ دعا پڑھی، وہ قیامت کے دن اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی شفاعت کا حق دار بن جائے گا اور اس کے لیے آپ کی شفاعت واجب ہو جائے گی۔

فوائد الحديث

مؤذن کے کلمات کو دوہرانے سے فارغ ہونے کے بعد اس دعا کی مشروعیت۔ جس نے اذان نہیں سنی، وہ یہ دعا نہیں پڑھے گا۔

اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی فضلیت کہ آپ کو وسیلہ، فضیلت، مقام محمود اور شفاعت عظمی کا حق جیسی چیزیں دی گئيں۔

رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کا ثبوت۔ کیوں کہ آپ کے الفاظ ہيں : "قیامت کے دن میری شفاعت اس کے لیے واجب ہوجائے گی"۔

اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی سفاش آپ کی امت کے اہل کبائر کے لیے ہوگی کہ ان کو جہنم نہ بھیجا جائے، جو جہنم چلے گئے ہیں ان کو وہاں سے نکال دیا جائے، بلا حساب و کتاب جنت میں داخل کر دیا جائے یا جنت میں داخل ہونے والے لوگوں کے درجات بلند کیے جائيں۔

طیبی کہتے ہیں : اذان کے کلمات شروع سے "محمدًا رسول الله" تک "الدعوة التامة" ہیں، "حی علی الصلاۃ" اور "حی علی الفلاح" "الصلاۃ القائمة" ہیں۔ یہاں ایک احتمال اس بات کا ہے کہ "الصلاۃ" سے مراد دعا ہو اور "القائمۃ" سے مراد دائمی۔ "قام على الشيء" کے معنی ہيں کسی چیز کی پابندی کرنا۔ اس طرح "الصلاة القائمة" دعوت تامہ کا بیان ہے۔ جب کہ دوسرا احتمال اس بات کا ہے کہ "الصلاة" س مراد نماز ہو، جس کی دعوت اس وقت دی جا رہی ہے۔ یہی زیادہ ظاہر بھی ہے۔

مہلب کہتے ہیں : اس حدیث میں نمازوں کے اوقات میں دعا کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ کیوں کہ ان اوقات میں دعا قبول ہونے کی امید رہتی ہے۔

التصنيفات

اخروی زندگی, اذان اور اقامت