ہم نے رسول الله ﷺ کے ساتھ سحری کی۔ پھر آپ ﷺ (صبح کی) نماز کے لیے کھڑے ہوئے۔ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے زید رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ سحری اور اذان میں کتنے وقت کا…

ہم نے رسول الله ﷺ کے ساتھ سحری کی۔ پھر آپ ﷺ (صبح کی) نماز کے لیے کھڑے ہوئے۔ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے زید رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ سحری اور اذان میں کتنے وقت کا وقفہ ہوتا تھا؟ تو انہوں نے کہا کہ پچاس آیتیں پڑھنے کے بقدر۔

زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہيں: ہم نے رسول الله ﷺ کے ساتھ سحری کی۔ پھر آپ ﷺ (صبح کی) نماز کے لیے کھڑے ہوئے۔ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے زید رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ سحری اور اذان میں کتنے وقت کا وقفہ ہوتا تھا؟ تو انہوں نے کہا کہ پچاس آیتیں پڑھنے کے بقدر۔

[صحیح] [متفق علیہ]

الشرح

کچھ صحابہ رضى اللہ عنہم نے اللہ کے نبی صلی اللہ کے و سلم کے ساتھ سحری کی اور اس کے بعد آپ فجر کی نماز کے لیے کھڑے ہوئے۔ چنانچہ انس رضی اللہ عنہ نے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے پوچھا: سحری سے فارغ ہونے سے لے کر اذان تک کا وقفہ کتنا رہا ہوگا؟ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: متوسط درجے کی پچاس آیتیں پڑھنے کے بہ قدر، جو نہ زیادہ لمبی ہوں اور نہ زیادہ چھوٹی۔ پڑھنے کا انداز بھی متوسط ہو۔ نہ تیز اور نہ دھیما۔

فوائد الحديث

فجر سے کچھ دیر قبل تک سحری کو مؤخر کرنا افضل ہے، کیوں کہ تاخیر سے سحری کرنا جسم کے لیے زیادہ نفع بخش اور دن بھر کے لیے زیادہ سودمند ہے۔

صحابہ کرام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھنے کے حریص ہوا کرتے تھے، تاکہ آپ سے علم حاصل کرسکیں۔

صحابہ کے ساتھ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا بہتر برتاؤ کہ ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھا لیا کرتے تھے۔

روزہ توڑنے والی چيزیں چھوڑنے کا وقت طلوع فجر سے شروع ہوتا ہے۔

حدیث کے الفاظ "اذان اور سحرى کے درمیان کتنا وقفہ تھا" سے مراد سحری اور اقامت کے درمیان کا وقت ہے۔ کیوں کہ دوسری حدیث میں ہے: "ان دونوں کے سحری سے فارغ ہونے اور نماز میں داخل ہونے کے درمیان کتنا وقت رہتا تھا"۔ اور ایک حدیث دوسری حدیث کی تفسیر کرتی ہے۔

مُہلَّب کہتے ہیں: اس حدیث میں وقت کی پیمائش جسمانی اعمال کے ذریعے کی گئی ہے۔ عربوں کے اندر یہ بات عام تھی۔ مثلا وہ کہا کرتے تھے: بکری دوہنے کے برابر وقت اور اونٹ ذبح کرنے کے برابر وقت۔ زید بن ثابت نے اس حدیث کے اندر وقت کی پیمائش مذکورہ مثالوں کى بجائے قراءت کے ذریعے کی ہے، جو اس بات کا اشارہ ہے کہ یہ وقت قراءت کے ذریعہ عبادت کا وقت ہوا کرتا تھا۔ اگر عمل کے علاوہ کسی اور چيز کے ذریعے وقت کی پیمائش کر رہے ہوتے، تو مثال کے طور پر کہتے: ایک درجے کے بقدر یا ایک گھنٹے کے ایک تہائی یا پانچویں حصے کے بقدر۔

ابن ابو جمرہ کہتے ہیں: اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم یہ دیکھتے کہ کون سی چیز آپ کی امت کے لیے زیادہ آسان ہے اور اس کے بعد اسی پر عمل کرتے۔ کیوں کہ اگر آپ سحری نہيں کرتے، تو آپ کی پیروی کرتے ہوئے لوگ بھی سحری نہيں کرتے اور اس طرح کچھ لوگ دشواری میں پڑ جاتے۔ اسی طرح اگر آپ رات کے درمیانی حصے میں سحری کرتے، تب بھی ایسے لوگ دشواری میں پڑ جاتے، جن پر نیند حاوی ہو جاتی ہے کیوں کہ ممکن تھا کہ اس کی وجہ سے ان کی نماز فجر چھوٹ جاتی یا رات جاگنے کی تکلیف سے گزرنا پڑتا۔

التصنيفات

روزے کی سنتیں