إعدادات العرض
”جو عورت اپنے اولیا کی اجازت کے بغیر نکاح کرے، اس کا نکاح باطل ہے“۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے یہ بات تین بار فرمائی۔ (پھر فرمایا:) ”اگر مرد نے ایسی عورت سے دخول کرلیا،…
”جو عورت اپنے اولیا کی اجازت کے بغیر نکاح کرے، اس کا نکاح باطل ہے“۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے یہ بات تین بار فرمائی۔ (پھر فرمایا:) ”اگر مرد نے ایسی عورت سے دخول کرلیا، تو اس کے عوض میں عورت کے لیے مہر ہے۔ اگر ولی آپس میں اختلاف کریں، تو حاکم وقت اس کا ولی ہے، جس کا کوئی ولی نہ ہو"۔
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو عورت اپنے اولیا کی اجازت کے بغیر نکاح کرے، اس کا نکاح باطل ہے“۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے یہ بات تین بار فرمائی۔ (پھر فرمایا:) ”اگر مرد نے ایسی عورت سے دخول کرلیا، تو اس کے عوض میں عورت کے لیے مہر ہے۔ اگر ولی آپس میں اختلاف کریں، تو حاکم وقت اس کا ولی ہے، جس کا کوئی ولی نہ ہو"۔
الترجمة
العربية Bosanski English فارسی Français Bahasa Indonesia Русский Türkçe हिन्दी 中文 ئۇيغۇرچە Kurdî Português Nederlands অসমীয়া Tiếng Việt ગુજરાતી Kiswahili پښتو සිංහල Hausa Tagalog മലയാളം नेपाली Magyar ქართული తెలుగు Македонски Svenska Moore Română ไทย Українська मराठी ਪੰਜਾਬੀ دری አማርኛ বাংলা Wolof ភាសាខ្មែរ ಕನ್ನಡالشرح
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس بات سے خبردار کیا ہے کہ کوئی عورت اولیا کی اجازت کے بغیر شادی کر لے۔ آپ نے اس طرح کے نکاح کو باطل کہا ہے اور اس جملے کو تین بار دوہرایا ہے۔ گویا کہ یہ نکاح ہوا ہی نہیں۔ اگر عورت کے ولی کی اجازت کے بغیر اس سے نکاح کرنے والے شخص نے اس سے دخول کر لیا، توچوں کہ اس سے جماع کرلیا ہے اس لئے اس عورت کو پورا مہر ملے گا۔ اس کے بعد فرمایا کہ اگر ولایت عقد کے سلسلے میں اولیا کے درمیان اختلاف ہو جائے اور سارے اولیا ایک ہی مرتبے کے ہوں، تو اس کا کیا ہوا عقد درست ہوگا جو پہلے عقد کرائے، جب اس نے نکاح عورت کے مصالح کا خیال رکھتے ہوئے کرایا ہو۔ اگر ولی نکاح کرانے سے منع کر دے، تو ایسا مانا جائے گا کہ اس کا ولی نہيں ہے۔ ایسے میں سلطان اور اس کا قائم مقام جیسے قاضی وغیرہ اس کے ولی ہوں گے۔ لیکن ولی کی موجودگی میں سلطان کو حق ولایت حاصل نہيں ہو سکتا۔فوائد الحديث
نکاح صحیح ہونے کے لیے ولی کا ہونا شرط ہے۔ ابن المنذر سے نقل کیا گیا ہے کہ کسی بھی صحابی سے اس الگ موقف رکھنا معلوم نہيں ہو سکا ہے۔
باطل نکاح میں عورت مرد کے اس کے ساتھ وطی کرنے کے مقابلے میں مہر کی حق دار ہوگی۔
حاکم وقت اس عورت کا ولی و سرپرست ہے جس کا کوئی سرپرست نہ ہو، خواہ اس کی وجہ یہ ہو کہ حقیقت میں اس کا ولی نہ ہو یا اس لیے کہ اس کا ولی اس کی شادی کرانے کے لیے تیار نہ ہو۔
ولی نہ ہونے یا دست یاب نہ ہونے کی صورت میں سلطان ولی ہوگا اور اس کے قائم مقام کے طور پر قاضی کام کرے گا، کیوں کہ ان مسائل میں قاضی سلطان کا نائب ہے۔
کسی کو عورت کی شادی کرانے کا ولی بنانے کا مطلب یہ نہيں ہے کہ اسے کوئی حق نہيں ہے۔ سچائی یہ ہے کہ اسے حق ہے اور اس کی اجازت کے بغیر اس کا ولی اس کی شادی نہيں کر سکتا۔
نکاح صحیح کی شرطیں : 1- اشارہ کر کے، نام لے کر یا صفات وغیرہ بیان کر کے میاں بیوی دونوں کی تعیین کرنا۔ 2- میاں بیوی دونوں کا راضی ہونا۔ 3- عورت کا عقد اس کے ولی کا کرانا۔ 4- عقد نکاح کا گواہ بنانا۔
عقد نکاح کرانے والے ولی کے اندر درج ذیل شرطیں ہونی چاہیے : 1- عاقل ہونا۔ 2۔ مرد ہونا۔ 3- بالغ ہونا۔ بالغ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ عمر پندرہ سال ہو جائے یا احتلام ہونے لگے۔ 4- اتحاد دین۔ لہذا کوئی کافر کسی مسلمان مرد یا عورت کا ولی نہيں بن سکتا۔ اسی طرح کوئی مسلمان کسی کافر مرد یا عورت کا ولی نہيں بن سکتا۔ 5- عدالت جو فسق کی منافی ہے۔ عدالت کا مطلب یہ ہے کہ انسان اس عورت کے مصالح کا خیال رکھنے کی صلاحیت رکھتا ہو، جس کی شادی وہ کرا رہا ہے۔ 6- ولی سمجھ دار ہو۔ نا سمجھ نہيں۔ یعنی اس کے نادر کفاءت اور مصالح نکاح کو جاننے کی صلاحیت موجود ہو۔
فقہا نے شادی کرانے کے معاملے میں عورت کے اولیا کی ایک ترتیب بنا رکھی ہے۔ لہذا دور کے ولی کو ولایت کا حق اسی وقت حاصل ہوگا، جب پاس کا ولی موجود نہ ہو یا اس کے ولی ولایت کی شرطیں پائی نہ جائيں۔ عورت کا ولی اس کا باپ ہے، پھر باپ کا وصی ہے، پھر دادا اور اس سے اوپر کے لوگ ہيں، پھر بیٹا ہے، پھر پوتے اور پڑپوتے ہیں، پھر حقیقی بھائی ہے، پھر باپ شریک بھائی ہے، پھر دونوں کے بیٹے ہيں، پھر حقیقی چچا ہے، پھر باپ شریک چچا ہے، پھر دونوں کے بیٹے ہيں، پھر قریب ترین خاندانی رشتے کے لوگ ہیں، جو میراث کے حق دار ہوا کرتے ہيں۔ اس کے بعد مسلم حمکراں اور اس کا نائب جیسے قاضی وغیرہ اس کا ولی ہے، جس کا کوئی ولی نہ ہو۔
التصنيفات
نکاح