اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم ضرور اپنے سے پہلے کی امتوں کے نقش قدم پر چلوگے۔

اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم ضرور اپنے سے پہلے کی امتوں کے نقش قدم پر چلوگے۔

ابو واقد لیثی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب اللہ کے رسول ﷺ حنین کے لیے نکلے، تو آپ کا گزر مشرکین کے ایک درخت سے ہوا، جسے ذات انواط کہا جاتا تھا، اس پر وہ اپنے ہتھیار لٹکاتے تھے۔ چنانچہ آپ کے ساتھ موجود لوگوں نے کہا : اے اللہ کے رسول! ہمارے لیے بھی ایک ذات انواط بنا دیجیے جیسا کہ ان کا ایک ذات انواط ہے۔ لہذا اللہ کے نبیﷺ نے فرمایا : "سبحان اللہ! یہ تو وہی بات ہے جو موسیٰ کی قوم نے کہا تھا کہ {اجْعَلْ لَنَا إِلَهًا كَمَا لَهُمْ آلِهَةٌ} (ہمارے لیے بھی ایک معبود بنا دیجیے جیسا کہ ان (مشرکوں) کے معبودان ہیں)۔ [سورہ اعراف : 138] اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم ضرور اپنے سے پہلے کی امتوں کے نقش قدم پر چلوگے۔"

[صحیح]

الشرح

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم طائف اور مکہ کے درمیان واقع ایک وادی حنین کی جانب نکلے۔ آپ کے ساتھ کچھ صحابہ ایسے بھی تھے، جو ابھی ابھی مسلمان ہوئے تھے۔ لہذا جب وہ "ذات انواط" نامی یعنی لٹکائی ہوئی چیزوں والے ایک پیڑ کے پاس سے گزرے، جس کی مشرکین تعظیم کیا کرتے تھے اور حصول برکت کے لیے اس پر اپنے ہتھیار لٹکایا کرتے تھے، تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے کہنے لگے کہ ان کے لیے بھی اسی طرح کا ایک پیڑ متعین کر دیں، جس میں وہ حصول برکت کے لیے اپنے ہتھیار لٹکا سکیں۔ دراصل وہ سمجھتے تھے کہ ایسا کرنا جائز ہے۔ چنانچہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ نے ان کی گزارش کے بارے میں ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے اور اللہ کی عظمت بیان کرتے ہوئے "سبحان اللہ" کہا اور بتایا کہ ان کی یہ بات موسی علیہ السلام کی قوم کی اس بات کے مشابہ ہے: (ہمارے لیے بھی ایک معبود بنا دیجیے جیسا کہ ان (مشرکوں) کے معبودان ہیں)۔ جب انھوں نے کچھ لوگوں کو بتوں کی پوجا کرتے ہوئے دیکھا، تو اس بات کا مطالبہ کیا کہ مشرکوں کی طرح ان کے بھی کچھ بت ہوں۔ آپ نے بتایا کہ آپ کے صحابہ کا یہ مطالبہ بھی دراصل ان کے نقش قدم کی پیروی ہے۔ پھر بتایا کہ یہ امت یہود و نصاری کے نقش قدم پر چلے گی اور ان کے کام کرے گی۔ آپ کا مقصد اس طرح کے کاموں سے خبردار کرنا تھا۔

فوائد الحديث

انسان کبھی کبھی کسی کام کو اللہ سے قریب کرنے والا کام سمجھ کر اچھا سمجھتا ہے، لیکن وہ حقیقت میں اللہ سے دور کرنے والا کام ہوتا ہے۔

انسان جب کسی کو دین کے بارے میں کوئی نامناسب بات کہتے ہوئے سنے یا کسی بات پر تعجب کرے، تو سبحان اللہ یا اللہ اکبر کہے۔

درختوں اور پتھر وغیرہ سے برکت حاصل کرنا بھی شرک کے زمرے میں آتا ہے۔ برکت صرف اللہ سے طلب کی جائے گی۔

بتوں کی پرستش کی وجہ ان کی تعظیم کرنا، ان کے پاس بیٹھنا اور ان سے برکت حاصل کرنا ہے۔

شرک تک پہنچانے والے دروازوں اور راستوں کو بند کرنے کی ضرورت۔

یہودیوں اور عیسائیوں کی مذمت میں وارد نصوص دراصل ہمارے لیے تنبیہ ہیں۔

اہل جاہلیت اور یہودو نصاریٰ کی مشابہت اختیار کرنا حرام ہے، سوائے اس کے کہ دلیل اس بات پر دلالت کرے کہ یہ ہمارے دین میں سے ہے۔

التصنيفات

توحیدِ اُلوہیت