جہاں تک میری بات ہے، تو اللہ کی قسم! اگر اللہ نے چاہا، تو جب بھی میں کسی بات کی قسم کھاؤں گا اور دوسری بات کو اس سے بہتر دیکھوں گا، تو اپنی قسم کا کفارہ ادا کر دوں گا اور…

جہاں تک میری بات ہے، تو اللہ کی قسم! اگر اللہ نے چاہا، تو جب بھی میں کسی بات کی قسم کھاؤں گا اور دوسری بات کو اس سے بہتر دیکھوں گا، تو اپنی قسم کا کفارہ ادا کر دوں گا اور وہی کروں گا، جو بہتر ہو۔

ابو موسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں : میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس اشعری قبیلے کے کچھ لوگوں کے ساتھ پہنچا۔ میں نے آپ سے سواری مانگی، تو آپ نے کہا : "اللہ کی قسم! میں تمھیں سواری نہيں دے سکتا اور نہ میرے پاس کوئی سواری ہے، جو تمھیں دے سکوں۔" پھر ہم وہاں جتنی دیر اللہ نے چاہا، اتنی دیر رکے۔ اسی درمیان آپ کے پاس کچھ اونٹ آ گئے، تو آپ نے ہمیں تین اونٹ دینے کا حکم دیا۔ جب ہم چل پڑے، تو ہمارے بیچ کے کچھ لوگوں نے دوسرے لوگوں سے کہا : اللہ ہمارے لیے برکت نہ دے۔ ہم نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آکر سواری مانگی اور آپ نے قسم کھاکر بتایا کہ ہمیں سواری نہيں دے سکیں گے اور پھر دے دی۔ ابو موسی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : چنانچہ ہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئے اور آپ کے سامنے اس کا ذکر کیا، تو آپ نے کہا : "سواری میں نے تمھیں نہيں دی ہے۔ سواری تو تمھیں اللہ نے دی ہے۔ جہاں تک میری بات ہے، تو اللہ کی قسم! اگر اللہ نے چاہا، تو جب بھی میں کسی بات کی قسم کھاؤں گا اور دوسری بات کو اس سے بہتر دیکھوں گا، تو اپنی قسم کا کفارہ ادا کر دوں گا اور وہی کروں گا، جو بہتر ہو۔"

[صحیح] [متفق علیہ]

الشرح

ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ بتا رہے کہ وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئے۔ ان کے ساتھ ان کے قبیلے کے کچھ اور لوگ بھی موجود تھے۔ مقصد یہ تھا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم انھیں سواری کے لیے کچھ اونٹ دیں، تاکہ وہ جہاد میں شریک ہو سکیں۔ لیکن اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے قسم کھاکر بتا دیا کہ آپ انھیں سواری نہيں دے سکتے۔ آپ کے پاس انھیں دینے کے لیے سواری کا انتظام نہيں ہے۔ لہذا واپس ہو گئے۔ کچھ دیر رکے۔ پھر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس تین اونٹ آئے، تو ان کے یہاں بھجوا دیے۔ یہ دیکھ کر ان میں سے کچھ لوگوں نے دیگر لوگوں سے کہا : اللہ ہمار لیے ان اونٹوں میں برکت نہ دے۔ کیوں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں سواری نہ دینے کی قسم کھا لی تھی۔ لہذا وہ آپ کے پاس آئے اور پوچھا، تو آپ نے کہا : تمھیں سواری تو دراصل اللہ نے دی ہے۔ کیوں کہ انتظام اسی نے کیا ہے اور توفیق اسی نے دی ہے۔ میں تو بس ایک سبب ہوں کہ یہ میرے ہاتھوں انجام پایا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے آگے فرمایا : جہاں تک میری بات ہے، تو اللہ کی قسم، جب بھی میں کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کی قسم کھاؤں گا اور بعد میں دیکھوں گا کہ میں نے جس کام کے کرنے یا نہ کرنے کی قسم کھائی تھی، اس سے بہتر کام دوسرا ہے، تو قسم کھائے ہوئے کام کو چھوڑ کر دوسرا کام، جو اس سے بہتر ہے، اسے کروں گا اور اپنی قسم کا کفارہ دے دوں گا۔

فوائد الحديث

کسی خبر کی تاکید کے لیے، خواہ وہ مستقبل ہی سے جڑی ہوئی کیوں نہ ہو، قسم کے مطالبہ کے بغیر بھی قسم کھانا جائز ہے۔

قسم کے بعد "اگر اللہ نے چاہا" کہہ کر استثنا جائز ہے۔ استثنا کی نیت جب قسم کے ساتھ ہی کر لی جائے اور وہ قسم کے ساتھ جڑی ہوئی ہو، تو قسم توڑنے والے پر کفارہ واجب نہيں ہوگا۔

اس بات کی ترغیب کہ جب کوئی شخص کسی چيز کی قسم کھالے اور اس کے بعد دیکھے کہ دوسری چیز اس سے بہتر ہے، تو اپنی قسم توڑ دے اور اس کا کفارہ ادا کرے۔

التصنيفات

قسمیں اور نذریں