”اے اللہ! میں تجھ سے دنیا و آخرت کی عافیت طلب کرتا ہوں۔

”اے اللہ! میں تجھ سے دنیا و آخرت کی عافیت طلب کرتا ہوں۔

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں : "اللہ کے نبی ﷺ جب صبح اور شام کرتے، تو ان دعاؤں کو پڑھنا نہیں چھوڑتے تھے : ”اے اللہ! میں تجھ سے دنیا و آخرت کی عافیت طلب کرتا ہوں۔ اے اللہ! میں تجھ سے اپنے دین و دنیا، اہل و عیال اور مال میں عافیت طلب کرتا ہوں۔ اے اللہ! میری شرم گاہ کی ستر پوشی فرما، مجھے خوف و خطرات سے مامون و محفوظ رکھ۔ اے اللہ! میری حفاظت فرما آگے سے، پیچھے سے، دائیں سے، بائیں سے اور اوپر سے۔ میں تیری عظمت کی پناہ چاہتا ہوں اس بات سے کہ میں اچانک اپنے نیچے سے اچک لیا جاؤں۔"

[صحیح]

الشرح

اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ صبح شام ان دعاؤں کو کبھی نہ چھوڑتے تھے : (اللهم إني أسألُكَ العافيةَ) اے اللہ! میں تجھ سے، برائیوں، بلاؤں، دنیوی مشکلات، شہوتوں اور دینی فتنوں سے تیری عافیت اور سلامتی کا سوالى ہوں۔ (في الدنيا والآخرة) دنیوی ہوں کہ اخروی، جلدى آنے والی ہوں یا تاخیر سے۔ (اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْعَفْوَ وَالْعَافِيَةَ فِي دِينِي وَدُنْيَايَ وَأَهْلِي وَمَالِي) اے اللہ! میں تجھ سے عفو و درگزر اور عیوب سے سلامتی کی دعا کرتا ہوں، خواہ عیوب دین سے متعلق ہوں، جیسے شرک، بدعت اور دیگر معاصی، یا دنیا سے متعلق ہوں‘ جیسے مصائب، اذیتيں اور شرور وفتن، یا اہل و عیال سے متعلق ہوں، جیسے بیوی بچوں اور رشتے داروں سے متعلق، یا پھر مال اور عمل سے سے متعلق ہوں۔ "اللَّهُمَّ اسْتُرْ عَوْرَتِي -أَو: عَوْرَاتِي- وَآمِنْ رَوْعَاتِي"۔ اے اللہ! میرے عیوب، کمیوں اور کوتاہیوں پر پردہ ڈال دے اور میرے گناہ مٹا دے۔ مجھے خوف و خطر سے محفوظ رکھ۔ "اللَّهُمَّ احْفَظْنِي مِنْ بَيْنِ يَدَيَّ، وَمِنْ خَلْفِي، وَعَنْ يَمِينِي، وَعَنْ شِمَالِي، وَمِنْ فَوْقِي"۔ اے اللہ میری حفاظت فرما اور تمام تکلیف دہ چیزوں اور بلاؤں و مصیبتوں کو مجھ سے دور رکھ۔ تمام جہات سے میری حفاظت فرما۔ کیوں کہ مصیبتیں اور آفتیں مذکورہ جہات ہی سے آتی ہيں۔ "وَأَعُوذُ بِعَظَمَتِكَ أَنْ أُغْتَالَ مِنْ تَحْتِي"۔ میں اس بات سے تیری عظمت کی پناہ چاہتا ہوں کہ نیچے کى جانب سے اچانک میرا مؤاخذہ ہو جائے اورغفلت کی حالت میں ہلاک ہو جاؤں پھر زمین میں دھنسا دیا جاؤں۔

فوائد الحديث

رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا کرتے ہوئے ان کلمات کی پابندی کرنی چاہیے۔

جس طرح انسان کو دین کے معاملے میں اللہ سے عافیت کی دعا کرنے کا حکم دیا گیا ہے، اسی طرح دنیا کے معاملے میں بھی عافیت کی دعا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

طیبی کہتے ہيں : چھ جہتوں کا ذکر کیا گیا ہے، کیوں کہ آفتیں انھیں جہتوں سے آتی ہیں۔ نیچے کی جہت کے بارے میں مبالغہ سے کام اس لیے لیا گیا ہے کہ اس جانب سے آنے والی آفت بدترین ہوا کرتی ہے۔

ان اذکار کو پڑھنے کا افضل وقت دن کے پہلے حصے میں فجر طلوع ہونے سے لےکر سورج طلوع ہونے تک ہے اور دن کے آخری حصے میں عصر کے بعد سے لے کر سورج ڈوبنے تک ہے۔ اگر کوئی بعد میں بھی پڑھتا ہے، یعنی صبح سورج بلند ہونے کے بعد پڑھتا ہے، تب بھی کافی ہے۔ ظہر کے بعد پڑھتا ہے، تب بھی کافی ہے اور مغرب کے بعد پڑھتا ہے، تب بھی کافی ہے۔

جب کوئى دلیل کسى ذکر کے تعلق سے یہ ہو کہ اس کا وقت رات ہی میں معین ہے، جیسے سورۂ بقرہ کی آخری دو آیتوں کو پڑھنا، تو ایسے ذکر کو رات میں سورج ڈوبنے کے بعد ہی پڑھا جائے گا۔

التصنيفات

ماثور دعائیں